الوداع جمعہ کی حقیقت / Alwida Jumaa ki Haqeeqat

الوداع جمعہ کی حقیقت

محمد امتیاز پلاموی ، مظاہری

الوداع جمعہ کی حقیقت یہ ہے کہ رمضان المبارک بارہ مہینوں میں سب سے افضل اور بابر کت مہینہ ہے ، جس میں ایک نیکی ستر نیکی کے برابر ہے ، جبکہ جمعہ ہفتہ کے سات دنوں میں سب سے افضل دن ہے ، اس دن کی بھی احادیث مبارکہ میں بہت سی فضیلتیں وارد ہوئی ہیں ،اسے ہفتہ کی عید قرار دیا گیا ہے، مسلمان اس دن کا اہتمام دھوم دھام سے کرتے ہیں ، لیکن یہی جمعہ جب رمضان المبارک کے موسم بہار میں آتا ہے تو اس کی عظمت اور بڑھ جاتی ہے ، اس دن کی قدر کا اہتمام بھی بڑھ جاتا ہے ، نیکیوں میں چار چند لگ جاتا ہے ، اہل اسلام کے لیے رمضان المبارک کا جمعہ گویا ساون کے مہینے کی موسلہ دھار بارش ہے جس کی بوندیں اکٹھا کرنے کے لیے راجستھانی ریگستانی دوڑ رہے ہوں۔ لیکن یہی جمعہ جب اس مہینے کا آخری جمعہ ہوتا ہے اور اپنی نیکیوں سے بھرا دن واپس جارہا ہوتا ہے تو نیکیوں کے طالب کے لیے ایک قسم کی مایوسی ہوتی ہے کہ اب یہ دن ہم سے رخصت ہو رہا ہے، ایک سال کے لیے دور جا رہا ہے ، پتہ نہیں پھر دوبارہ ملاقات ہوگی یا نہیں ، اس سے نفع اندوزی کا موقع ملے گا یا نہیں؟ اس ارادہ سے معاشرہ میں اس آخری جمعہ کو ” الوداعی جمعہ ” یا ” جمعۃ الوداع” کے نام سے یاد کیا جانے لگا۔

الوداع جمعہ کی خرافات

الوداع جمعہ کے وداعی اور رخصتی کے نام پر طرح طرح کی رسمیں اور خرافات معاشرہ میں رائج ہوگئے ہیں، کہیں پر اس دن جمعۃ الوداع کے نام پر نئے نئے کپڑے پہنے جاتے ہیں ، کہیں پر جمعۃ الوداع کے دن مخصوص طور قضاء عمری کے نام پر نمازیں پڑھنے کا رواج ہے اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس دن مخصوص طریقہ سے قضاء عمری پڑھنے سے پہلے کی ساری نمازیں معاف ہوجائیں گی ( معاذاللہ) ، بہت سی مساجد میں جمعہ کے خطبوں میں ” الوداع الوداع یا شھر رمضان” یا اس طرح کے مخصوص الفاظ کے ذریعہ الوداعی کلمات کہہ کر جمعہ الوداع منایا جاتا ہے، معاشرہ میں جمعۃ الوداع کی اتنی اہمیت ہے کہ لوگ سالوں بھر نمازیں ، یا جمعہ پڑھتے ہوں یا نہ ؛ لیکن جمعۃ الوداع پڑھنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں ، جمعہ کو الوداع کہنا ، یا الوداعی خطبہ پڑھنا ضروری سمجھا جاتا ہے، کہیں پر تو الوداع یا شھر رمضان نہ کہنے کی صورت میں امام صاحب سے جھگڑا بھی ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے رسم ادا کیے جاتے ہیں ۔

الوداع جمعہ کی شرعی حیثیت

اب سوال یہ ہے کہ جمعۃ الوداع کا اہتمام کرنا اور اس کے لیے مخصوص اعمال و کلمات کے ذریعہ الوداع کرنا ، جمعۃ الوداع کا مخصوص خطبہ پڑھنا یا جمعہ کے خطبے میں ” الوداع الوداع یا شھر رمضان” وغیرہ کلمات پڑھنا اور ضروری سمجھنا (وغیرہ ذالک) کے متعلق شریعت کا کیا حکم ہے؟ کیا یہ چیزیں شریعت کا حصہ ہیں ؟ کیا ایسا کرنا ضروری ہے ؟ کیا ان کاموں کو ضروری سمجھ کر کرنا درست ہے؟ کیا یہ کام اہل سنت والجماعت کے ہیں یا بہت سے دیگر کاموں کی طرح یہ بھی اہل روافض کے کاموں میں سے ہیں ؟

جواب : یہ ہے کہ جمعۃ الوداع کا اہتمام کرنا شریعت سے ثابت نہیں ، پیارے آقا ﷺ تو پورے عشرے اعتکاف کیا کرتے تھے، نیز صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تابعین و تبع تابعین کے عمل سے بھی ثابت نہیں ، اسی طرح جمعہ کے خطبے میں الوداع الوداع یا شھر رمضان وغیرہ پڑھنا بھی درست نہیں۔ اور دیگر خرافات یہ اہل روافض کے مخصوص شعار میں سے ہیں ، جس کی پوری تفصیل فتاویٰ کی روشنی میں آگے آئے گی ۔ انشاءاللہ

الوداع جمعہ خطبہ کب سے شروع ہوا ؟

آن‌لائن فتوٰی دارالعلوم دیوبند

سوال : الوداع جمعہ خطبہ کب سے شروع ہواتھا ، سب سے پہلے ( الوداع جمعہ خطبہ) کس نے پڑھا تھا؟ اور اس کی اہمیت کیا ہے؟ کیا الوداع جمعہ کے حقوق اور خطبہ الگ ہونے چاہئے؟ یا پھر کوئی بھی خطبہ پڑھا جاسکتاہے؟

جواب نمبر: 48405بسم الله الرحمن الرحيم

Fatwa ID: 1547-1031/L=1/1435-U

الوداع جمعہ خطبہ کب سے شروع ہوا، سب سے پہلے اس خطبہ کو کس نے پڑھا اس کی صراحت مجھے نہیں مل سکی، البتہ خطبہ کا وجود قرون مشہود لہا بالخیر میں نہیں تھا، فقہاء نے اس خطبہ کے پڑھنے کا ذکر نہیں کیا۔ اس خطبہ کی کوئی فضیلت ثابت نہیں بلکہ علماء نے اس کو مکروہ وبدعت تک لکھا ہے، اس لیے رمضان کے آخری جمعہ میں بھی عام خطبہ ہی پڑھا جائے۔ واللہ تعالیٰ اعلم دارالافتاء،دارالعلوم دیوبند

الوداع جمعہ خطبہ پر دارالعلوم دیوبند کے 3 فتوے

فتویٰ (1) سوال ٢٣٨٢: رمضان شریف میں آخری جمعہ کو ایسا خطبہ پڑھنا جس میں الفاظ الفراق یا الوداع یا شہر رمضان ،  جائز ہے یا نہیں؟

الجواب:  ایسا خطبہ پڑھنا جائز نہیں ہے، علماء نے اس سے منع فرمایا ہے اور اس کو شعار روافض کا لکھا ہے ۔ فقط واللہ اعلم

فتویٰ (2) سوال ٢٣٨٣: خطبہ جمعہ اخیرہ رمضان المقدس جو کلمات حسرت و افسوس الودا الودا اور الفراق الفراق پر مشتمل ہے، یہ حدیث سے ثابت ہے یا نہیں؟

الجواب:  ثابت نہیں ہے ۔ فقط واللہ تعالی اعلم

فتویٰ (3) سوال ٢٣٨٤: رمضان شریف کے آخر جمعے میں الوداع پڑھنا خطبہ میں کیسا ہے ؟

الجواب : خطبۃ الوداع آخر رمضان المبارک میں ثابت نہیں ہے ، اور پڑھنا اس کا مناسب نہیں ہے۔ 

فقط واللہ تعالیٰ اعلم ۔ فتاوی دارالعلوم دیوبند جلد نمبر 5 /صفحہ 166۔

الوداع کا خطبہ فتاویٰ رشیدیہ

سوال : پڑھنا آخر جمعہ کو ماہ رمضان المبارک میں الوداع الوداع یا شہر رمضان اور الوداع الوداع یا سنت تراویح اور اشعار فارسی یا اردو یا عربی کا ہر جمعہ میں، یا آخر جمعہ ماہ رمضان المبارک میں در صورتیکہ عوام الناس خطبۃ الوداع آخر جمعۃ رمضان المبارک کو سنت بلکہ قریب واجب جانتے ہوں، کیسا ہے ؟ آیا حسب زعم ان کے سنت یا مستحب ؟ یا بخلاف اس کی بدعت ہے ؟ بدلائل عقلیہ و نقلیہ از کتب معتبر جواب ارقام فرمایا جاوے۔

جواب :  یہ خطبہ بدعت ہے ، کہ مرثیہ اور اشعار قرون مشہود لہا بالخیر میں، خطبہ میں منقول نہیں  علی الخصوص جب اس فعل کو ضروری جانا جاوے کہ موکد جاننا کسی امر مستحب کو بھی داخل تعدی حدود اللہ اور بدعت ضلالہ ہے ، چہ جائے کہ امر محدث ، اور پھر غیر زبان عربی میں خطبہ پڑھنا مکروہ ہے ، بہرحال یہ فعل عوام جہلاء خطباء کا اور سنت جاننا اس کا بدعت ضلالہ واجب الترک ہے ۔

فقط واللہ تعالی اعلم۔

فتاویٰ رشیدیہ ١٤٨-١٤٩ مکتبہ ثاقب بک ڈپو دیوبند

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top