داؤدی بوہرا اور آغا خانیوں کے عقائد و نظریات

داؤدی بوہرا اور آغا خانیوں کے عقائد و نظریات

از : محسن احسان رحمانی

خرد نے کہہ بھی دیا لا الٰہ تو کیا حاصل ؟

دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں

داؤدی بوہرا اور آغا خانی کا تعارف

داؤدی بوہرے و آغا خانی اہل تشیع کی شاخیں ہیں ، یہ دونوں گروہ اپنے آپ کو حضرت جعفر صادق رحمہ اللہ تعالی کے بڑے صاحبزادے حضرت اسماعیؒل کی طرف منسوب کرتے ہوئے اسماعیلی شیعہ بتاتے ہیں۔

داؤدی بوہرہ اور عام مسلمانوں میں فرق

  • ان حضرات کی اپنی الگ کمیونٹی ہوتی ہے
  • اسی طرح عبادت گاہ
  • قبرستان
  • شادی خانے
  • کالونیاں عام مسلمانوں سے علیحدہ ہوتے ہیں
  • بوہرے مرد مخصوص لباس میں اپنے ہاتھوں سے ماتم بھی کرتے ہیں
  • ان کی خواتین بھی مخصوص لباس پہنتی ہیں اور چہرے کا پردہ نہیں کرتیں
  • یہ لوگ ایام حج سے پہلے حج کی ادائیگی کر لیتے ہیں
  • مسلمانوں کی عید سے پہلے عید منا لیتے ہیں
  • ان کا کیلنڈر عام مسلمانوں کے کیلنڈر سے علیحدہ ہے
  • یہ دونوں فرقے کے لوگ اپنی دکانوں اور مکانوں میں موجودہ داعی و امام کی تصاویر لگاتے ہیں
  • اور کبھی اپنے مذہب سے متعلق کسی سے بات نہیں کرتے
  • سوال کرنے پر لاعلمی کا اظہار کرتے ہیں
  • نہ کہیں ان کے جلسے و جلوس دکھائی دیتے ہیں
  • اور نہ ہی ان سے متعلق کتابیں کہیں دریافت ہوتی ہیں کہ ان کے عقائد و نظریات اور رسوم و رواج کو معلوم کیا جائے ۔

داؤدی بوہرہ و آغا خانی کہاں آباد ہیں؟

داؤدی بوہرا اور آغا خانی دنیا کے مختلف ممالک میں پائے جاتے ہیں، ہندوستان کی کئی ریاستوں تلنگانہ، مہاراشٹر، یو پی وغیرہ میں اور ہمارے شہر حیدرآباد اور سکندرآباد کے کئی علاقوں میں داؤدی بوہرے اور آغا خانی موجود ہیں ۔

داؤدی بوہرا کی کتابیں

ان حضرات کے عقائد و نظریات پر کتابیں کمیاب ہیں، معلومات آسانی سے دستیاب نہیں ہوتیں ،خود ان کے مذہب کے پیروکار بھی اپنی تعلیمات سے آگاہ نہیں ؛  کیونکہ داعی یا حاضر امام کا فرمان ہی خدا و رسول کے فرمان کا درجہ رکھتا ہے ۔

داؤدی بوہرا کی حکومت

مصر میں انہوں نے ڈھائی سو سال تک فاطمی حکومت کے نام سے حکمرانی کی ہے ، فاطمی حکومت کی تاریخ بھی خون آشام تاریخ ہے ، جسے صدر الاسلام عبدالقاہر بن محمد البغدادی الشافعی کی تصنیف  “الفرق بین الفرق “ میں پڑھا جا سکتا ہے،  آج اسماعیلی داعیوں کو امن پسند کی قطار میں کھڑا کیا گیا ہے ،

کیا غضب ہے کل تک جو ستم گروں میں تھے

ستم رسیدہ میں اب ان کا بھی نام آیا ہے

داؤدی بوہرہ ( اسماعیلی ) کی تاریخ

اسماعیلیوں کی تاریخ بے انتہا گنجلک و پیچیدہ ہے، ان کے عقائد و نظریات سے قبل مختصراً ان فرقوں کے وجود کو ملاحظہ فرمائیں۔

سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کی اولاد میں حضرت جعفر صادقؒ تک اثنا عشری ، داؤدی بوہرے اور آغا خانی تینوں متحد نظر آتے ہیں ؛ لیکن آگے چل کر تینوں میں اختلافات ہوئے اور موجودہ زمانے میں ایک دوسرے پر گمراہی کا فتوی لگاتے ہیں ۔ اسماعیلی عقائد پر ایک نظر صفحہ ٣

اثنا عشریہ کا تعارف

اثنا عشری شیعہ : وہ لوگ ہیں جنہوں نے سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کے بعد ترتیب وار حضرات حسنینؓ ،  حضرت علی بن حسین (زین العابدین ) حضرت محمد باقر ، حضرت جعفر صادق کی امامت کو تسلیم کیا اور ان کے بعد ان کا جانشین چھوٹے بیٹے حضرت موسی کاظم کو مانا اور انہی کی اولاد میں امامت کو قبول کیا اور ان یکے بعد دیگر علی رضا، محمد جواد تقی ، علی نقی ، حسن عسکری اور اخیر میں حضرت  ” مہدی ”  کو امام مانا ۔ اس طرح حضرت علی ؓ سے مہدی تک بارہ اماموں کا سلسلہ رہا، اسی لیے انہیں اثنا عشری کہتے ہیں۔

ان کے نزدیک ان کے آخری امام مہدی امام مستور کہلاتے ہیں ، جو قرب قیامت ظاہر ہوں گے ۔

داؤدی بوہرا کا تعارف

داؤدی بوہرا : وہ لوگ ہیں جنہوں نے سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کے بعد ترتیب وار حضرت جعفر صادق تک امامت کو تسلیم کیا، آپ کے بعد بڑے صاحبزادے حضرت اسماعیل (یعنی موسی کاظم کو نہیں مانا ) کو اور ان کی اولاد میں حق امامت کو جاری رکھا، اور یہی سلسلہ امامت کا چلتا ہوا اثنا اشعری کے برخلاف 21ویں امام ” طیب ” تک جاری رہا  اور یہ طیب مستور یعنی چھپ گئے۔

ان کی نسل میں ابھی بھی امامت کا سلسلہ جاری ہے اور پوشیدہ ہے ، قرب قیامت انہی کی نسل سے ایک قائم القیامہ کا ظہور ہوگا، اس کے بعد داعی یعنی نائب امام کا سلسلہ شروع ہوا ، یمن میں 400 سال داعیوں کا سلسلہ باقی رہا، 24ویں داعی مطلق اور ہندوستان کے سب سے پہلے داعی یوسف نجم الدین رہے ، جن کا مقام سدہ گجرات تھا ، 99 ہجری میں داؤد بن قطب شاہ کو 24واں داعی بنایا گیا،  اسی وجہ سے انہیں داؤدی اور ان کا پیشہ تجارت ہونے کی وجہ سے انہیں بہارے ، کثرت استعمال کی وجہ سے بوہرے (یعنی بیوہار یعنی بیوپار)  کہا جاتا ہے، اس وقت 53 واں داعی مفضل سیف الدین ہے، جن کا مقام بدری محل ممبئی ہے اور یہی داؤدی بوہروں کا مرکز بھی ہے ۔ عقد الجواہر فی احوال البواہر صفحہ ایک 136۔

آغا خانی کا تعارف

آغا خانی خوجے:  وہ لوگ ہیں جنہوں نے داؤدی بوہروں کی طرح اثنا عشریہ کے برخلاف حضرت اسماعیلؒ اور ان کی اولاد میں اٹھارویں امام مستنصر باللہ متوفی 478 ہجری تک امامت کو تسلیم کیا، ان کے دو بیٹوں نزار اور مستعلی متوفی 526 ہجری میں حق امامت سے متعلق اختلاف ہوا ، نزار اور اس کی اولاد میں امامت کا عقیدہ رکھنے والے نزاری کہلائے اور ان کا مرکز ایران ہو گیا ، تقریبا وہاں 35 سال انہوں نے حکومت کی ،  آگے چل کر 19ویں صدی عیسوی میں نزاری سلسلے کے امام حسن علی خان المعروف آغا خان اول 1258 ہجری 1842 عیسوی میں افغانستان ہوتے ہوئے ہندوستان آئے، ان کا حلقہ اثر ممبئی و نواحی علاقوں میں رہا ، آج اس سلسلے کے 49 ویں امام کریم الحسینی المعروف آغا خان چہارم ہے اور ابھی بھی ان میں امامت کا سلسلہ جاری ہے،  آغا خان کا لقب ایران کے حکمران فتح علی شان دیا تھا، اسی وجہ سے نزاریوں کو آغا خانی کہا جاتا ہے۔  اسماعیلیہ صفحہ 54 – 55 ۔

اور خوجی کہنے کی بھی کوئی خاص وجہ نہیں ہے، بعض کاروباری لوگوں نے جنہیں خواجہ کہا جاتا تھا، انہوں نے اس فرقے کے عقائد کو قبول کیا جس کی وجہ سے انہیں خواجہ کے بجائے خوجے کہا جانے لگا ۔

ان اسماعیلی حضرات نے قرآنی آیات اور احادیث کے معنی و مطالب میں حد درجہ اختراع سے کام لیا ہے،  جیسا کہ ان کے باب الابواب جعفر بن منصور الیمن کی تعلیم سرائر النطقاء کی عبارتوں سے معلوم ہوگا ۔

آغا خانی کا میثاق

ان کے اپنے مذہب سے متعلق کسی سے بات نہ کرنے کا ہر سال ایک عہد لیا جاتا ہے ، جسے میثاق کہتے ہیں، ان کے یہاں سات چیزوں پر ایمان لانا فرض ہے، ان میں سب سے اہم ولایت ہے۔ ( دعائم الاسلام جلد ایک کتاب الولایہ)

داؤدی بوہرا کا عقیدۂ سرّیت

ان حضرات کے مذہب و اعتقاد کی بنیاد خصوصاً (داؤدی بوہرا )  پردہ پوشی و سریت پسندی پر ہے،  جیسا کہ انہی کے ہمدرد نے بیان کیا ہے ، شروع ہی سے اسماعیلی تحریک روپوش تحریک تھی ، ان کے ائمہ عباسی خلفاء کے خوف سے اپنے ناموں کو بھی پوشیدہ رکھتے تھے ۔ (اسماعیلی عقائد پر ایک نظر صفحہ ٣) 

جس وقت اسماعیلیوں نے مصر پر اپنی حکومت قائم کی، تو قیام سلطنت کے بعد بھی ایک مخصوص کمرے میں اپنے مجالس تاویلیہ کے عقائد کی تبلیغ اور علوم اہل بیت کی اشاعت کرنے لگے۔( عہد فاطمی میں علم و ادب صفحہ ٣ )۔ 

راقم کو بڑی مشکل سے وہ مستند کتب دستیاب ہوئی ہیں، جن میں داؤدی و آغا خانی اماموں کے ہوش ربا عقائد و نظریات موجود ہیں اور یہ وہ کتابیں ہیں جن کے یاد کرنے پر اماموں نے انعام کا اعلان کیا تھا اور ان کو پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کے اسماعیلیوں کو ترغیب دی تھی اور مصنف و مرتب وہ علماء ہیں جن کی شان کا کوئی اسماعیلی انکار نہیں کر سکتا، ان کے عقائد و نظریات حیران کن ہیں؛ اس لیے کہ انہوں نے قرآن و حدیث کو فلسفے کے ساتھ ملا کر پیش کیا تھا، جیسا کہ ظ انصاری لکھتے ہیں

فاطمی دور حکومت میں علم ہیأت اور ہندوسوں کے مسائل پر ضخیم کتابیں تصنیف کی گئیں ، خود ائمہ فاطمیین ان باطنی علوم کی بھی تعلیم دیا کرتے تھے ، جو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے سینہ بہ سینہ چلی آرہی تھیں (یعنی کسی کتاب میں موجود نہیں تھیں ) فاطمی وراثت صفحہ ٧) 

داؤدی بوہرا کے عقائد و نظریات

  1. باری تعالی کے جو اوصاف قرآن مجید میں وارد ہوئے ہیں ان سے مراد حقیقت میں ائمہ موصوف ہیں ؛ کیونکہ ذات باری تمام اوصاف سے منزہ اور مبرہ ہے،  جس طرح بیان کیا جا چکا۔  تاریخ فاطمیین مصر 271
  2. جس طرح یہود و نصاری نے اصلی تورات و انجیل کو چھوڑ کر اپنی رائے اور قیاس سے علیحدہ کتاب جمع کر لی ، مسلمانوں نے بھی اسی طرح کیا اپنی رائے اور قیاس سے ایک الگ قران جمع کیا ۔ (ہمارے اسماعیلی مذہب مقدمہ ص ق)
  3. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بحیرا راہب (دور عیسوی کے آخری ) امام ایک وادی میں ملے اور نبوت کی میراث جو ان کے پاس تھی، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سپرد کی، جس کی وجہ سے آپ نبی ہوئے ،اس کے بعد آپ اپنی قوت کے کمال کو پہنچے اور وحی آپ پر نازل ہوئی ، جس کی بدولت آپ رسول ہوئے ۔ (ہمارے اسماعیلی مذہب کی حقیقت اور اس کا نظام فصل 21 صفحہ 532)
  4. اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو اپنا وصی نہ بنایا ہوتا تو ، آپ کی شریعت کو قائم کرنا کوئی فائدہ نہیں دیتا اور حضرت علیؓ کی اطاعت اور ولایت کے بغیر خدا کا کوئی دین نہیں۔( سرائر النطقاء صفحہ 8 دارالاندلس)
  5. زید بن عمرو بن نوفل نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے امام اور صاحب دور حضرت بحیرہ راہب کا عہد لیا اور حضرت عیسی علیہ السلام کی شریعت کے لیے اقرار کیا یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت ملنے سے پہلے آپ نے مسیحی دعوت کی تبلیغ کی ۔نعوذ باللہ اور امام وقت بحیرہ راہب تھے۔  زید بن عمرو بن نوفل آپﷺ کے علمی باپ تھے۔ ( سرائر ٢٧٣)
  6. محمد صلی اللہ علیہ وسلم جب بلوغت کو پہنچے تو ابی ابن کعب کی تربیت میں آ گئے۔
  7.   اسماعیلی شیعہ کے علاوہ تمام لوگ جہنم میں ہیں۔
  8. اسماعیلی اماموں کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے ، ان کی نافرمانی اللہ کی نافرمانی ہے ۔
  9. جہاں تک حضرت عیسی علیہ السلام کی جسمانی پیدائش کی بات ہے تو،  روایت کی گئی ہے کہ حضرت حبیب نجار نے ان کی ماں سے شادی کی تھی ، جس کا نام حضرت بیدنو تھا،  حضرت حبیب نجار نے اس کے ساتھ نقدی مہر اور معتبر گواہوں کی موجودگی میں درست طریقے سے شادی کی تھی ۔ (سرائر قصہ عیسی علیہ السلام) 
  10. قرآن کریم کی تمام آیتیں جو بہشت کی ترغیب دلاتی ہیں وہ ہمارے شیعوں کے بارے میں ہے اور وہ تمام آیتیں جو اگ سے ڈراتی ہیں اور دوزخیوں کی یاد دلاتی ہیں وہ دشمن اور مخالفین کے بارے میں ہیں ۔
ولایت یعنی حضرت علی کی امامت

ان حضرات کا یہ ماننا ہے کہ امام نائب رسول اور داعی مطلق نائب امام ہوتا ہے ، اس لیے اس کا امر اشارہ اور فعل بھی نص میں شمار ہوگا ۔ (ڈاکٹر برہان عظیم رہنما صفحہ 124 )

خدا کی قسم تمہارے سوا (یعنی اسماعیلیوں )کسی کی نماز زکوۃ اور حج قبول نہیں کی جائے گی اور تمہارے سوا کوئی بھی مغفرت کا مستحق نہیں ہوگا۔  اسلام کے سات ستون ہیں ان میں سب سے پہلے ولایت ہے، اس کے بعد طہارت، نماز ،روزہ، حج، جہاد ہیں ۔ (فاطمی اکابر صفحہ 109)

حضرت آدم علیہ السلام کے متعلق عقیدہ

حضرت آدم علیہ السلام کی جسمانی ولادت سران دیب کے صوبوں میں ایک جزیرے میں ہوئی، آپ کے جسمانی ماں باپ بھی تھے، آدم نام نہیں ؛ بلکہ ایک لقب ہے، جو اپنے زمانے میں ہر ناطق اور اپنے اثر میں ہر امام پر واقع ہوتا ہے ۔

حضرت آدم علیہ السلام کا نام جو آپ کے لیے خاص کیا گیا تھا ، وہ خون بن بجلاہ بن قوامہ بن ورقہ الریا تھا اور اس وقت کے امام کا نام حنیف تھا، آپ کے ضد کا نام جو کہ ابلیس سے مشہور تھا وہ  حارث بن مرہ تھا،  اس سے بھی آگے شریعت سے دور باتیں لکھی گئی ہیں، جیسے شیرنی نے آدم علیہ السلام کو دودھ پلایا، آدم جو جنت میں تھے وہ ایک جزیرہ تھا ( سرائر النطقاء قصہ آدم علیہ السلام) 

  1. شیخین کریمین سے روایت لینے والے فقہائے کرام بت ہیں
  2. اہل بیت کی طرف منسوب کرتے ہوئے کہا گیا : کہ تقیہ میرے اور میرے آباؤ اجداد کے دین کا حصہ ہے ، جو تقیہ نہیں کرتے اس کا دین نہیں  ۔ ( کتاب الولایہ صفحہ 103 )
  3. اسماعیلیوں کے یہاں حضرت مہدی کا ظہور ہو چکا ہے ، ان کی نسل سے قیامت کے روز ایک امام امام ظاہر پیدا ہوں گے، جو قائم القیامہ ہوں گے۔ ( تاریخ فاطمین مصر صفحہ 249 )
  4. عہد صحابہ کے بارے میں حدیث بیان کرنے والے بدعتی ہیں ،حقدار کا حق چھیننے والے ہیں اور ان کے متبعین
  5. جاہل و کمینے لوگ ہیں۔  (اسلام جلد ایک صفحہ 84) ۔ ويل للمشركين الذين لا يؤتون الزكاه ۔ حم آیت٦-٧ مشرکین پر وقف نہیں کرتے ، یہ آیت اس شخص کے بارے میں نازل ہوئی ہے ، جس نے امیر المومنین حضرت علی کی ولایت میں شرک کیا، اور اپنی زکوٰۃ اس شخص کو دی جس نے خود کو اس کے مقابلے میں کھڑا کیا، (کتاب الولات صفحہ ٥)
  6. جو اسماعیلی دعوت کا مخالف اور دشمن ہوتا ہے اس کے برے اعمال کی ایک صورت تیار ہوتی ہے، جسے صورت ظلمانیہ کہتے ہیں ، یہ صورت الگ الگ شکل اختیار کرتی ہے ، کبھی یہ کسی کھانے پینے والی چیزوں کی شکل اختیار کرتی ہے، اسے چند مخصوص لوگ کھاتے ہیں، پھر وہ اپنی بیویوں سے ملتے ہیں ، ان سے ایسے ہی لوگ پیدا ہوتے ہیں ، جو انبیاء اوصیاء اور ائمہ کے مخالف ہو کر ان کے رتبے کا دعوی کرتے ہیں ، یہ اکثر انہیں قتل بھی کر دیتے ہیں ،قابیل ، نمرود ، خلیفہ اول ، خلیفہ ثانی اور معاویہ رضی اللہ عنہم وغیرہ انہی لوگوں میں شامل ہیں ۔  نعوذ باللہ  (ہمارے اسماعیلی مذہب فصل 26 صفحہ 582 584 )
  7. شیخین کریمین نے دین کو بدل دیا اور رسول کی مخالفت کی،  نعوذ باللہ ۔ 
  8. جو شخص اپنی زندہ امام کی معرفت کے بغیر فوت ہوا وہ جاہلیت کی موت مر گیا اور جو بھی امام زمانہ کا منکر ہوا وہ جاہلیت کی موت مرے گا، خواہ وہ آل محمد میں سے ہو یا غیر آل محمد سے۔ 
  9. داعی یا اس کا عامل ہر بالغ سے میثاق لیتا ہے ، جس میں امام زمان کے ساتھ داعی کی اطاعت کا اقرار لیا جاتا ہے اور جو شخص اس میثاق کی خلاف ورزی کرتا ہے ، تو اگر اسلامی حکومت ہو تو اس کو قتل کر دیا جاتا ہے یا اس کا تمام مال اسباب لوٹ کر غرباء میں تقسیم کر دیا جاتا ہے اور اگر حکومت نہیں ہے تو اعتقاداً اس کا نقد مال اور اس کی تمام ملکیت اس پر حرام ہوگی اور وہ سب مثل خیرات شدہ مال کے ہوگا، اس کی بیوی مطلقہ ہوگی ، اگر وہ باوجود نقض میثاق کے اپنے مال پر قابض رہا ، تو اس کی مثال یوں دی جاتی ہے کہ :  کوئی مومن جانتا ہے کہ شراب حرام ہے اور پھر بھی پیتا ہے، نقض میثاق والے شخص سے ترک تعلقات کر لیا جاتا ہے، پھر وہ جماعت میں نہ تو شادی کر سکتا ہے نہ جماعت کے قبرستان میں دفن کیا جا سکتا ہے۔ ( ڈاکٹر برہان الدین عظیم رہنما صفحہ 132)  اس میثاق عہد نامہ کی مزید تفصیل باطنیہ کا حلف کے عنوان سے صدر الاسلام عبدالقاہر بن محمد البغدادی الشافعی کی تصنیف الفرق بین الفرق صفحہ 45 پر بالتفصیل ملے گی۔
داؤدی بوہرا کا لباس

داؤدی بوہروں کا لباس عباسی دور حکومت میں وزرا کالا لباس اختیار کرتے تھے ، جس کی مخالفت میں فاطمین نے سفید لباس کو اختیار کیا ، جس پر آج بھی وہ لوگ عمل پیرا ہیں ، یہ لوگ بھی تین اوقات میں پانچ نمازیں ادا کرتے ہیں، نماز کے لیے الگ لباس رکھنے کا معمول ہے ، مردے قبر میں دفن کرتے وقت اپنے اماموں کے ناموں کی فہرست بھی رکھتے ہیں، ایک بڑے تھالے میں کھانا کھاتے ہیں ، کھانے سے قبل نمک چکھتے ہیں ، وغیرہ

آغا خانیوں اور داؤدی بوہروں کے مزید عقائد و نظریات اور ان کے رسوم و رواج کو جاننے کے لیے تاریخ دولت فاطمیہ ، عقد الجواہر فی احوال البواہر، اسماعیلی بوہروں اور اغا خانیوں کا تعارف ، پاکستان کے دینی مسالک کتاب الولایہ، ہمارے اسماعیلی مذہب کی حقیقت اور اس کا نظام تاریخ ، فاطمین مصر ، کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔

بوہرا کے عقائد بدلتے رہتے ہیں

ہر زمانے کے اماموں نے حالات کے اعتبار سے اپنے مذہب کے عقائد و نظریات کو بھی بدلا ہے ، خاص طور پر آغا خانیوں کے حاضر امام نے جن کی دعاؤں کی کتاب شیعہ امامی و اسماعیلی طریقہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے شریعت سے اپنے ماننے والوں کو بالکل آزاد کر دیا ہے ۔

داؤدی بوہرا اور آغا خانی پر فتویٰ

ان دونوں فرقوں سے متعلق فتاوی موجود ہیں کہ یہ دونوں فرقے گمراہ ہیں اور اسلام سے خارج ہیں۔  مسلمانوں کو ان سے تعلقات قائم کرنے ، نکاح کرنے اور ان کی تقاریب میں شرکت کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ 

اللہ پاک ہر گمراہ فرقے سے امت مسلمہ کی حفاظت فرمائے اور ایمان کے ساتھ موت نصیب فرمائے امین

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top