کیا قرآن کریم کی تفسیر کے لیے صرف عربی زبان جان لینا کافی ؟

قرآن کریم کی تفسیر کے لیے کن علوم کی ضرورت ہے ؟

قرآن کریم کی تفسیر ایک انتہائی نازک اور مشکل کام ہے، جس کے لیے صرف عربی زبان جان لینا کافی نہیں  ؛ بلکہ تمام متعلقہ علوم میں مہارت ضروری ہے  ؛ چنانچہ علماء نے لکھا ہے کہ: مفسر قران کے لیے ضروری ہے کہ وہ عربی زبان کے نحو صرف اور بلاغت و ادب کے علاوہ علم حدیث ، اصول فقہ و تفسیر اور عقائد و کلام کا وسیع و عمیق علم رکھتا ہو ؛ چونکہ جب تک ان علوم سے مناسبت نہ ہو انسان قران کریم کی تفسیر میں کسی صحیح نتیجے تک نہیں پہنچ سکتا۔

افسوس ہے کہ کچھ عرصہ سے مسلمانوں میں یہ خطرناک وبا چل پڑی ہے ، کہ بہت سے لوگوں نے صرف عربی پڑھ لینے کو قرآن کریم کی تفسیر کے لیے کافی سمجھ رکھا ہے ، چنانچہ جو شخص بھی معمولی عربی زبان پڑھ لیتا ہے وہ قران کی تفسیر میں رائے زنی شروع کر دیتا ہے

بلکہ بعض اوقات ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ عربی زبان کی نہایت معمولی شد بدھ رکھنے والے لوگ جنہیں عربی پر بھی مکمل عبور نہیں ہوتا نہ صرف من مانے طریقے پر قرآن کی تفسیر شروع کر دیتے ہیں ؛ بلکہ پرانے مفسرین کی غلطیاں نکالنے کے درپے ہو جاتے ہیں، یہاں تک کہ بعض ستم ظریف تو صرف ترجمے کا مطالعہ کر کے اپنے آپ کو قران کا عالم سمجھنے لگتے ہیں اور بڑے بڑے مفسرین پر تنقید کرنے سے نہیں چوکتے۔

خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ یہ انتہائی خطرناک طرز عمل ہے جو دین کے معاملے میں نہایت مہلک گمراہی کی طرف لے جاتا ہے ، دنیاوی علوم و فنون کے بارے میں ہر شخص اس بات کو سمجھ سکتا ہے کہ اگر کوئی شخص محض انگریزی زبان سیکھ کر میڈیکل سائنس کی کتابوں کا مطالعہ کر لے تو دنیا کا کوئی صاحب عقل اسے ڈاکٹر تسلیم نہیں کر سکتا، اور نہ اپنی جان اس کے حوالے کر سکتا ہے جب تک کہ اس نے کسی میڈیکل کالج میں باقاعدہ تعلیم و تربیت حاصل نہ کی ہو ، اس لیے کہ ڈاکٹر بننے کے لیے صرف انگریزی سیکھ لینا کافی نہیں بلکہ باقاعدہ ڈاکٹر کی تعلیم و تربیت حاصل کرنا ضروری ہے ۔

اسی طرح کوئی انگریزی دان انجینئرنگ کی کتابوں کا مطالعہ کر کے انجینیئر بننا چاہے تو دنیا کا کوئی بھی باخبر انسان اسے انجینیئر تسلیم نہیں کر سکتا ، اس لیے کہ یہ کام صرف انگریزی زبان سیکھنے سے نہیں آ سکتا ، بلکہ اس کے لیے ماہر اساتذہ کے زیر تربیت رہ کر ان سے باقاعدہ اس فن کو سیکھنا ضروری ہے ۔ جب ڈاکٹر اور انجینیئر بننے کے لیے یہ کڑی شرائط ضروری ہیں ،  تو آخر قرآن و حدیث کے معاملے میں صرف عربی زبان سیکھ لینا کافی کیسے ہو سکتا ہے ؟

  زندگی کے ہر شعبے میں ہر شخص اس اصول کو جانتا اور اس پر عمل کرتا ہے کہ ہر علم و فن کے سیکھنے کا ایک خاص طریقہ اور اس کی مخصوص شرائط ہوتی ہیں ، جنہیں پورا کیے بغیر اس علم و فن میں اس کی رائے معتبر نہیں سمجھی جاتی ، تو آخر قرآن و سنت اتنے لاوارث کیسے ہو سکتے ہیں کہ ان کی تشریح و تفسیر کے لیے کسی علم و فن کے حاصل کرنے کی ضرورت نہ ہو ؟  اور اس کے معاملے میں جو شخص چاہے رائے زنی شروع کر دے ؟ ۔۔ ( اسلام اور دور حاضر کے شبہات و مغالطے صفحہ ٥٣-٥٤)

قرآن کریم کی تفسیر کون کرسکتا ہے ؟

اعتراض!

بعض لوگ یہ اعتراض اٹھاتے ہیں کہ قرآن کریم تمام انسانوں کے لیے ایک ہدایت کی کتاب ہے، لہذا ہر شخص کو اس سے اپنی سمجھ کے موافق فائدہ اٹھانے کا حق حاصل ہے اور اس کی تشریح و تفسیر پر صرف علماء کی اجارہ داری قائم نہیں کی جا سکتی ۔

جواب:

  لیکن یہ بھی انتہائی سطحی اور جذباتی اعتراض ہے جسے حقیقت پسندی اور معاملہ فہمی سے دور کا بھی واسطہ نہیں، قرآن کریم بلاشبہ تمام انسانوں کے لیے سرمایہ ہدایت ہے ، لیکن اس سے یہ کیسے لازم آ گیا کہ ہر ان پڑھ جاہل بھی اس سے دقیق قانونی اور کلامی مسائل کا استنباط کر سکتا ہے؟ اور اس مقصد کے لیے کسی قسم کی صفات و اہلیت درکار نہیں؟

ایک مثال !

اس کی مثال یوں سمجھیے کہ کوئی ماہر قانون ، فلسفی، یا ڈاکٹر اگر اپنے فن پر کوئی کتاب لکھتا ہے تو ظاہر ہے کہ اس کا منشاء پوری انسانیت کو فائدہ پہنچانا ہی ہوتا ہے ، اب اگر کوئی ایسا شخص جو ان علوم و فنون کے مبادی سے واقف نہیں ہے کھڑا ہو کر یہ اعتراض کرنے لگے کہ یہ کتابیں تو پوری انسانیت کے فائدے کے لیے لکھی گئی تھیں، ان پر ماہرین قانون ، فلسفی اور ڈاکٹروں نے اپنی اجارہ داری کیوں قائم کر لی ہے؟

  تو اس کی عقل پر ماتم کے سوا اور کیا کیا جا سکتا ہے ؟ اگر کسی کتاب سے کما حقہ فائدہ اٹھانے کے لیے اہلیت کی کچھ صفات مقرر کرنا اجارہ داری قائم کرنے کی تعریف میں آتا ہے تو پھر دنیا کے کسی علم و ہنر کو جاہلوں اور اناڑیوں کی دست برد سے محفوظ نہیں رکھا جا سکتا ۔

کتاب سے فائدہ اٹھانے کے دو طریقے:

دراصل علم و فن کی ہر کتاب انسانیت کو فائدہ پہنچانے کے لیے ہوتی ہے لیکن اس سے فائدہ اٹھانے کی دو ہی طریقے ہیں:  (١) یا تو انسان اس علم و فن کو باقاعدہ ماہر اساتذہ سے حاصل کرے اور اس کے لیے جو محنت اور جتنا وقت درکار ہے اسے خرچ کرے۔ (٢) اور اگر وہ ایسا نہیں کر سکتا تو جن لوگوں نے اس علم و فن کو حاصل کرنے کے لیے اپنی عمریں کھپائی ہیں ان میں سے جس پر زیادہ اعتماد ہو اس کی تشریح و تفسیر پر بھروسہ کرے۔

  ان دو راستوں کے علاوہ جو شخص کوئی تیسرا راستہ اختیار کرے گا وہ اپنے اوپر بھی ظلم کرے گا اور متعلقہ علم و فن پر بھی ۔ بالکل یہی معاملہ قرآن و سنت کا بھی ہے ، کہ وہ بلا شبہ پوری انسانیت کے لیے دستور ہدایت ہیں ؛ لیکن اس سے ہدایت حاصل کرنے کے بھی دو ہی طریقے ہیں : (١) یا تو انسان علوم کو ماہر اساتذہ سے باقاعدہ حاصل کر کے ان میں پوری بصیرت پیدا کرے (٢) یا پھر ان لوگوں کی تشریح و تفسیر پر اعتماد کرے جنہوں نے اپنی زندگیاں ان علوم کے لیے وقف کی ہیں۔ 

اس 100 فیصد معقول اصول کو جس پر دنیا کے ہر علم و فن کے معاملے میں عمل کیا جاتا ہے اجارہ داری کا طعنہ دینا سوائے سطحی جذبات کے اور کیا ہے ؟ کیا ساری دنیا میں صرف قرآن و سنت ہی (معاذ اللہ) ایسے لاوارث رہ گئے ہیں کہ ان سے مسائل مستنبط کرنے کے لیے اہلیت کی کوئی شرط درکار نہیں ہے؟ اور ان پر ہر کس و ناقص مشق ستم کر سکتا ہے ؟ ۔‌( علوم القرآن صفحہ ٣٦٤) بحوالہ اسلام اور دور حاضر کے شبہات و مغالطے صفحہ ٥٥-٥٦)

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top