وقف قانون 2025 ہم مسلمانوں کو قبول کیوں نہیں ؟
حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب
صدر ال انڈیا مسلم پرسن اللہ بورڈ

نحمده ونصلي ونسلم على رسوله الكريم اما بعد.
عزیزان گرامی ! جیسا کہ آپ سبھوں کے علم میں ہوگا کہ صرف مسلمان ہی نہیں ؛ بلکہ ملک کی تمام انصاف پسند اور سیکولر قوتوں کی مخالفت کے باوجود اقتدار کے نشے میں بدمست اور نفرت کی سوداگر حکومت نے وقف ترمیمی بل 2024 کو پاس کر دیا اور صدر جمہوریہ کے دستخط کے بعد یہ قانون بن چکا ہے ، یوں تو پورا ( نیا وقف ) قانون ہی مسلم مخالف ، دستور مخالف اور ظلم و ناانصافی پر مبنی ہے ؛ لیکن اس کے چند واضح نامنصفانہ پہلو کو نظر میں رکھنے کی ضرورت ہے ۔
وقف املاک کو ہڑپنے کی کوشش
اس قانون کا مقصد وقف کی املاک کو ہڑپ لینا اور سرکاری تعاون سے ضائع کرنا ہے اور اس کے لیے کئی تدبیریں اختیار کی گئی ہیں
الف : وقف ایکٹ 1995ء میں یہ بات درج ہے کہ اگر طویل عرصے سے کوئی جائیداد بطور مسجد ، درگاہ یا قبرستان کے استعمال میں ہے اور مذہبی اور خیراتی مقاصد کے لیے ہے ، تو اس کو وقف جائیداد تسلیم کیا جائے گا ، اس کو وقف بذریعہ استعمال Waqf by user کہا جاتا ہے ، موجودہ حکومت نے جو یہ بل پیش کیا تھا اس میں اس کو بالکل ختم کر دیا گیا تھا ، پھر جب مسلمانوں نے مطالبہ کیا تو بعض این ڈی اے حلیفوں کے مشورے پر اس میں ترمیم کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ مستقبل میں جو املاک وقف کی جائیں گی ان پر اس کا اطلاق ہوگا ، پہلے سے جو وقف موجود ہے ان میں وقف بالاستعمال کو تسلیم کیا جائے گا ؛ لیکن اگر ان میں کوئی تنازع ہو یا سرکاری زمین ہو تو صرف استعمال کی وجہ سے ان کو وقف نہیں مانا جائے گا، یہ ایک طرح سے ماضی کے اوقاف کو بھی ہڑپنے کی ایک بالواسطہ کوشش ہے ۔
عام طور پر جو لوگ کوئی زمین یا جائیداد دینی یا خیراتی مقاصد کے لیے وقف کرتے ہیں، تو وہ یہ سوچ کر کہ ہم نے یہ زمین اللہ کے لیے وقف کر دی ہے اس سے لاتعلق ہو جاتے ہیں ، جب حکومت سروے کرواتی ہے تو ان اراضی کا کوئی مدعی سامنے نہیں آتا اور ان کو بحق سرکار لکھ دیا جاتا ہے ۔
دیہات و قصبات اور چھوٹے شہروں وغیرہ میں وقف کی ایسی بہت سی جائیدادیں موجود ہیں، ان تمام زمینوں کو سرکاری زمین قرار دے کر ان پر قبضہ کی کوشش کی جا سکتی ہے ۔
دوسرے : ہمارے ملک میں ہندو دہشت گردوں اور انتہا پسندوں نے کسی بھی مسجد ، درگاہ ، عید گاہ وغیرہ پر بلا دلیل و ثبوت ہندو مذہبی مقام ہونے کا مطالبہ کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے ، جس کی ابتدا ایودھیا سے ہوئی ۔ رات کے اندھیرے میں چھپ چھپا کر وہاں ایک مورتی لا کر رکھی گئی اور دعوی کیا گیا کہ یہاں رام جی پر کٹ ہوئے ہیں ، اب اس طرح کے دعوے ملک کے مختلف حصوں میں کیے جانے لگے ہیں، ابھی گیان واپی مسجد میں وضو خانہ کے فوارے کو شیولنگ کہا جا رہا ہے، اور وی ایچ پی نے تقریباََ ساڑھے تین ہزار مساجد کی فہرست تیار کر رکھی ہے ، جس کے بارے میں دعوی کیا جا رہا ہے کہ یہاں مندر تھے ، اور اس فہرست میں آئے دن اضافہ ہی ہوتا رہتا ہے۔
درگاہوں پر بھگوا جھنڈے لگائے جا رہے ہیں، قبرستانوں کو مسمار کیا جا رہا ہے اور بے دلیل دعوے کی بنیاد پر حکومت ان کو متنازع تسلیم کر لیتی ہے، اس طرح اگر غور کیا جائے تو حکومت نے ایک طرف اپنے حلیفوں کی بات رکھنے کے لیے گزشتہ اوقاف کا استثناء کیا ہے، تو دوسری طرف نہایت ہی چابک دستی کے ساتھ ان پر بھی خود قبضہ کرنے اور ہندو دہشت گردوں کو قبضہ دلانے کا راستہ نکال لیا ہے۔
با : 1995 کے قانون کی دفعہ 107 کے تحت اوقاف کی جائیداد کو لیمیٹیشن ایکٹ (Limitation act ( سے مستثنی رکھا گیا تھا، لمٹیشن ایکٹ کے تحت کسی جائیداد پر 12 سال یا اس سے زائد قبضہ کو ملکیت تسلیم کیا جاتا ہے اور قابض شخص کو اس کا مالک تسلیم کر لیا جاتا ہے اور وقف کی جائیداد کو اس سے مستثنی کیا گیا تھا، اس کا فائدہ یہ تھا کہ وقف کی جائیداد پر قدیم غاصبانہ قبض ختم کروائے جا سکتے تھے ، موجودہ قانون میں لمیٹیشن ایکٹ سے وقف کی جائیداد کے استثنٰی کو ختم کر دیا گیا ہے اور اس طرح قدیم غاصبانہ قبضے کو جواز فراہم کیا گیا ہے۔
ج: ہندوستان میں بہت سے مسلمان بادشاہوں ، نوابوں اور زمینداروں نے اپنی غیر مسلم رعایا کے لیے وقف کیا ہے ، اسی طرح غیر مسلم حکمرانوں اور راجاؤں نے مسلمانوں کے لیے زمینیں اور عمارتیں دان دی ہیں، اور آج بھی بہت سے غیر مسلم بھائی اپنے مسلمان ہمسایوں کے لیے خیر کے کاموں میں زمین دیتے ہیں، اسی طرح مسلمان بھی برادران وطن کے لیے زمین کا تحفہ دیتے ہیں ، موجودہ قانون کے تحت وہ جائیدادیں جو کسی غیر مسلم نے وقف کے لیے عطیہ کی ہوں اور بطور مسجد ، قبرستان اور مسافر خانہ استعمال ہو رہی ہوں ، کو ختم کر دیا گیا ہے ؛ لہذا غیر مسلموں کے یہ عطایا وقف کے دائرے سے باہر نکل جائیں گے اور بہت سے اوقاف پر سرکار کے قابض ہو جانے کا خطرہ ہے۔
تفریق پر مبنی قانون
یہ قانون پوری طرح تفریق اور امتیاز پر مبنی ہے ؛ چنانچہ
الف : وقف بذریعہ استعمال ( وقف بائی یوزر ) کی صورت ہندو مذہبی املاک کے لیے سکھوں ، بدھسٹوں اور دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے لیے اب بھی تسلیم کی جاتی ہے ؛ لیکن مسلمانوں کے اوقاف کے معاملے میں اس کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جیسا کہ اوپر اس کا ذکر آیا ہے ، یہ واضح طور پر مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان امتیاز پر مبنی قانون ہے ۔
با: لیمیٹیشن ایکٹ سے استثنا کا قانون ہندو، سکھ ، بودھ اور کرسچن وغیرہ کے لیے بھی موجود ہے ؛ لیکن یہ قانون مسلمانوں کو اپنے اوقاف کے تحفظ سے محروم کرتا ہے ۔
جیم: ہندو اینڈومینٹ ، جو ہندو اوقاف کی شکل ہے، میں اس بات کو ضروری قرار دیا گیا ہے کہ اس کا ہر رکن ہندو ہو ، اتر پردیش ، کیرالہ ، کرناٹک اور تملناڈو وغیرہ میں ایسے قانون موجود ہیں جن کے مطابق ہندو جائیدادوں کا انتظام صرف ہندو ہی کر سکتے ہیں۔
بہار انڈومینٹ ایکٹ کے تحت تین بورڈ قائم ہیں (١) ہندو انڈومینٹ بورڈ (٢) ستمبر جین اینڈومینٹ بورڈ (٣) ڈگمبر انڈونمنٹ بورڈ ۔ ان بورڈوں کے اراکین لازمی طور پر ہندو ہی ہوں گے، گردوارہ پربندھک کمیٹی کے ارکان بھی لازمی طور پر سکھ فرقے سے ہی ہوں گے۔
موجودہ قانون میں وقف انتظامیہ میں کم سے کم دو غیر مسلموں کی نمائندگی لازمی کر دی گئی ہے، اور مسلم نمائندگی کو مختلف پہلوؤں سے کم کیا گیا ہے، پہلے شرط تھی کہ وقف بورڈ کا چیف ایگزیکٹو مسلمان ہوگا ، اب اس شرط کو ہٹا دیا گیا ہے، پہلے وقت بورڈ کی سفارش پر چیف ایگزیکٹو کا تقرر ہوتا تھا ، اب حکومت خود اس کا تقرر کرے گی ، سینٹرل وقف کونسل میں پہلے ایک غیر مسلم رکن ہو سکتا تھا ، اب ان غیر مسلم اراکین کی تعداد رکن و بحیثیت عہدہ 13 ہو سکتی ہے اور دو غیر مسلم اراکین تو لازما شامل ہوں گے ، اور پہلے ریاستی وقت بورڈ میں صرف ایک غیر مسلم اس کا چیئر پرسن ہو سکتا تھا ؛ جبکہ باقی سارے ارکان مسلمان ہوتے تھے اور انتخاب کے ذریعے آتے تھے ، اب بورڈ کے سات ارکان غیر مسلم ہو سکتے ہیں، اور دو ارکان کا غیر مسلم ہونا لازمی ہے، نیز ارکان کو وقت بورڈ منتخب نہیں کرے گا ؛ بلکہ ریاستی حکومت نامزد کرے گی ۔
وقف میں رکاوٹ
نئے اوقاف کو روکنے کی بھی کوشش کی گئی ہے ؛ چنانچہ گزر چکا ہے کہ غیر مسلم وقف نہیں کر سکتا، اسی طرح اس قانون کے مطابق جو شخص گزشتہ کم سے کم پانچ سال سے اسلام پر عمل کر رہا ہو صرف وہی وقف قائم کر سکتا ہے ، یہ پوری طرح شریعت کے خلاف ہے ،اسلام کی نظر میں جو شخص آج اسلام قبول کرے وہ بھی اسی طرح مسلمان ہے جیسے پانچ سال پہلے مسلمان ہونے والا شخص ، یہ پانچ سال تک ایک مسلمان کو ان کے بنیادی مذہبی حق سے محروم کرنے کے مترادف ہے، اس طرح وقف کے عمل کو دشوار بنا دیا گیا ہے ، اور پھر یہ ثابت کرنا کہ وقف کرنے والا اسلام کی تمام تعلیمات پر پانچ سال سے عمل پیرا ہے بے حد مشکل ہے ۔
اصول وقف کی مخالفت
اسلام کا تصور یہ ہے کہ مالک کو اپنے املاک پر جائز تصرف کرنے کا پورا حق حاصل ہے ، اور شریعت کی نظر میں اپنی اولاد اور رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک بھی ایک کار ثواب ہے ، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کہ بیوی کے منہ میں لقمہ رکھنا بھی ثواب کا باعث ہے ، اسی لیے اسلام میں وقف کا تصور ہے وہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰیٰ عنہ ،حضرت علی کرم اللہ وجہ اور مختلف صحابہ رضی اللہ عنہم کے عمل سے ثابت ہے، یعنی ایسا ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص اپنی زمین یا جائیداد اولاد پر وقف کرے، ایسی صورت میں وقف کرنے والے کی شرط کے مطابق اس کے خاندان کے لوگ اس زمین و جائیداد سے فائدہ تو اٹھائیں گے ؛ لیکن اس کو بیچنے کے مجاز نہیں ہوں گے۔
موجودہ قانون میں اس میں بھی تبدیلی لانے کی کوشش کی گئی ہے، پہلے تو بل میں یہ بات کہی گئی تھی کہ یہ وقف اسی وقت قابل و قبول ہوگا ؛ جبکہ حقیقی وارثوں کے حقوق پامال نہ ہو ، یہ شرط بھی ناقابل قبول تھی ؛ کیونکہ ورثہ کو تو تقسیم وراثت کے ذریعے اپنا حق ملتا ہی ہے اور یہ حق مالک کی موت کے بعد متعلق ہوتا ہے ، اب بعد میں جو 14 ترامیم آئی ہیں اس میں کہا گیا ہے : کہ وقف اس طرح کیا جائے گا کہ اس سے کسی کا قانونی حق تلف نہ ہو ، اس میں بہت زیادہ عموم ہے، اور یہ شریعت کے مقرر کیے ہوئے اصولوں میں دخل دینا ہے۔
وقف کو کمزور کرنے کی کوشش
قانون وقف کو کمزور کرنے کی ایک اور صورت یہ اختیار کی گئی ہے کہ پہلے قانون وقت کو اوور رائڈنگ ایکٹ تسلیم کیا گیا تھا ، یعنی اگر دوسرے قوانین سے وقف قانون کا تعارض ہو ، تو وقف قانون لاگو ہوگا ، اس بل میں اسے بھی ختم کر دیا گیا ہے ، حقیقت یہ ہے کہ وقف ایکٹ ایک اسپیشل قانون ہے اور مسلمہ قانونی اصول اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق اگر کوئی اسپیشل قانون کسی جنرل قانون سے ٹکراتا ہے تو اس صورت میں اسپیشل قانون کو فوقیت حاصل ہوتی ہے ، یہ صرف وقف ایکٹ کے ساتھ خاص نہیں ہے ؛ بلکہ یہ اصول دیگر اسپیشل ایکٹ پر بھی نافذ ہوتا ہے ، مگر وقف کو اس سے محروم کر دیا گیا ہے ۔
وقف پر جھوٹ کا سہارا
افسوس ! کہ حکومت کے موجودہ ذمہ داروں نے جھوٹ بولنے کا ریکارڈ قائم کیا ہے، اگر جھوٹ بولنے اور جھوٹے وعدے کرنے پر کوئی ایوارڈ دیا جاتا ، تو شاید ملک کے وزیراعظم اور وزیر داخلہ اس کے اولین مستحق قرار پاتے ۔ وقف کے سلسلے میں بھی بار بار کچھ جھوٹ دہرائے جاتے ہیں، جو برادران وطن کو متاثر کرتے ہیں، ان کا تذکرہ مناسب معلوم ہوتا ہے : وقف بورڈ کو کسی بھی جائیداد پر دعوی کرنے کے مطابق اختیارات دیے گئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ آج ملک بھر میں وقف جائیدادیں تقریباً چھ لاکھ ایکڑ زمین پر محیط ہیں اور ملک کے تیسرے سب سے بڑے زمین کے مالک ہیں ۔
ایک صاحب علم نے اس کی بڑی عمدہ وضاحت کی ہے، وہ لکھتے ہیں:
سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق : بھارت میں تمام وقف جائیدادوں کا مجموعی رقبہ چھ لاکھ ایکڑ ہے، اس کا موازنہ اگر ہندو اینڈومٹ سے کیا جائے تو تملناڈو میں 4 لاکھ 75 ہزار ایکڑ اور آندھرا پردیش میں 6 لاکھ 68ہزار ایکڑ زمین انڈومنڈ کے پاس ہیں، صرف ان دونوں ریاستوں کو ملا کر نو لاکھ 40 ہزار ایکڑ زمین ہندو اینڈومینٹ کے پاس ہے ؛ جبکہ پورے بھارت میں وقف جائیدادوں کا مجموعی رقبہ چھ لاکھ ایکڑ ہے ۔
زمین کو وقف قرار دینا کوئی خفیہ عمل نہیں ہے اس کا پورا پروسیجر وقف ایکٹ میں مذکور ہے ، وقف صرف وہی شخص کر سکتا ہے جو اپنی جائیداد کا مالک ہو اور اس سے اپنی ملکیت کے دستاویزات وقف بورڈ میں جمع کروانے ہوتے ہیں، اس کے بعد عوام کو اعتراضات داخل کرنے کے لیے نوٹس جاری کیا جاتا ہے ، حکومت ایک سروے کمشنر مقرر کرتی ہے ، جو زمینوں کی جانچ کرتا ہے اور ان کے وقف ہونے کی تصدیق کرتا ہے ، اس کے بعد یہ اعلان ریاستی گزٹ میں شائع کیا جاتا ہے اور کوئی بھی شخص اس نوٹیفیکیشن کو ایک سال کے اندر وقف ٹریبیونل میں چیلنج کر سکتا ہے ، اس کی حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان میں سات لاکھ دس ہزار گاؤں ہیں اگر مان لیا جائے کہ ان میں سے نصف تعداد میں کم یا زیادہ مسلمان بھی بستے ہیں، تو ایسے گاؤں کی تعداد 3 لاکھ 85 ہزار ہوتی ہے ، مسلمان جہاں بھی آباد ہوتے ہیں وہاں کم از کم ایک قبرستان ہوتا ہے، عید گاہ ہوتی ہے اور نماز کے لیے مسجد ہوتی ہے، اگر قبرستان اور عید گاہ کے لیے ایک ایکڑ اور مسجد کے لیے نصف ایکڑ یعنی اوسطا ڈھائی ایکڑ فی آبادی زمین فرض کی جائے، تو اس کی مقدار تو نو لاکھ باسٹھ ہزار ایکڑ زمین ہونی چاہیے ، جیسا کہ ہندو بھائیوں کے یہاں مندر ، مٹھ ، شمشان گھاٹ وغیرہ ہوتے ہیں، اگر اس حساب سے دیکھیں تو چھ لاکھ ایکڑ زمین کوئی بڑا رقبہ نہیں ہے اور پھر سرکار کی دی ہوئی نہیں ہے، بلکہ خود مسلمانوں کی ہے۔
نمبر دو (٢): یہ بھی تاثر دیا جا رہا ہے کہ وقف کی جائیداد کا فیصلہ ایک طرفہ طور پر وقف ٹریبیونل کر دیتا ہے ، اور کسی بھی جائیداد کو اپنے قبضے میں لے سکتا ہے۔
وقف ٹریبیونل کی حقیقت
حقیقت یہ ہے کہ وقف ٹریبیونل کی حیثیت سول عدالت کی ہے ، جس کا اعلیٰ افسر ڈسٹرکٹ جج ہوتا ہے، اگر وقف کی جائیداد پر کوئی شخص، ادارہ یا سرکار قابض ہو تو اس میں کیس چلتے ہیں ، فریقین اپنا ثبوت پیش کرتے ہیں، اس کی روشنی میں ٹریبونل فیصلہ کرتا ہے ، اگر فیصلہ پر کوئی ایک فریق مطمئن نہیں ہوا تو وہ ہائی کورٹ جا سکتا ہے اور ہائی کورٹ کے فیصلے سے مطمئن نہ ہو، تو سپریم کورٹ میں چیلنج کر سکتا ہے، اس لیے یہ کہنا کہ وقف ٹریبیونل کی مدد سے وقف بورڈ جائیداد کو وقف قرار دیتا ہے، جھوٹا اور بے بنیاد پروپیگنڈا ہے ۔
نمبر تین (٣): معترضین بار بار یہ بات اٹھاتے ہیں کہ سابق قانون وقف بورڈ کو کسی بھی زمین پر دعوی کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے، یہ بھی دھوکہ اور جھوٹ ہے ، سوال یہ ہے کہ کیا وقف بورڈ کسی ثبوت اور شہادت کے بغیر کوئی دعویٰ کر سکتا ہے؟ اور کیا صرف وقف بورڈ کے کسی دعویٰ کی بنیاد پر کوئی فیصلہ ہو سکتا ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی شخص پر یہ پابندی نہیں ہے کہ وہ کس زمین پر اپنا حق پیش کر سکتا ہے اور کس پر نہیں ؟ البتہ یہ ضرور ہے کہ کوئی بھی شخص دعویٰ کرے تو قابل قبول ثبوت کے بغیر دعوی قبول نہیں کیا جاتا، اور مقدمہ قبول کرنے کے بعد بھی جب تک کوئی بات ثبوت و شہادت سے ثابت نہ ہو جائے اس دعویٰ پر مہر نہیں لگائی جاتی ہے اور اس دعوی کا نفاذ نہیں ہوتا ہے، اس لیے یہ صرف پروپیگنڈا ہے۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں اس ظلم کے خلاف مضبوطی سے کھڑا ہونے کی توفیق بخشے اور اوقاف کو ہڑپنے کے لیے بنائے گئے اس قانون کو جلد از جلد واپس لیے جانے کے فیصلے فرمائے۔ آمین یا رب العالمین ۔
ماخوذ از : سوشل میڈیا ڈیسک ال انڈیا مسلم پرسن اللہ بورڈ