اسلام میں سیاست کا کیا مقام ہے؟
کیا اسلام میں سرے سے سیاست کا کوئی پہلو نہیں ؟
اسلام اور سیاست کے تعلق کے بارے میں آج کل دو ایسے نظریات پھیل گئے ہیں جو افراط و تفریط کی دو انتہاؤں پر ہے ، ایک نظریہ سیکولرزم کا ہے، جس کے نزدیک اسلام بھی دوسرے مذاہب کی طرح انسان کا ذاتی اور انفرادی معاملہ ہے، جس کا تعلق بس اسی کی ذاتی زندگی سے ہے ، آپ دیکھ چکے ہیں کہ درحقیقت یہ نظریہ عیسائی تھیوکریسی کی خرابیاں سامنے آنے کے بعد ایک رد عمل کے طور پر اپنایا گیا تھا ، اور سیکولر جمہوریت کے رواج کے بعد یہ دنیا میں مقبول ہو گیا ۔ اس نظریے کو مزید تقویت بعض ان دینی حلقوں کے طرز عمل سے بھی ملی ، جنہوں نے نہ صرف خود اپنی سرگرمیوں کا محور عقائد و عبادات اور زیادہ سے زیادہ اخلاق کی درستی کی حد تک محدود رکھا ؛ بلکہ جو لوگ اس دائرے سے باہر جا کر کسی قسم کی سیاسی سرگرمیوں میں مصروف ہوئے ان پر تنقید بھی کی ، کہ ایک دیندار آدمی سیاست میں کیوں ملوث ہو ؟
یہ نقطہ نظر درحقیقت اسلام کو دوسرے مذاہب پر قیاس کرنے سے پیدا ہوا ، حالانکہ یہ قیاس قطعی طور پر غلط ہے ، اسلام کی ہدایات و تعلیمات صرف عقائد و عبادات اور اخلاق کی حد تک محدود نہیں ہیں ، بلکہ وہ مالیاتی معاملات اور سیاست و حکومت کے بارے میں بھی ہمیں بڑے اہم احکام عطا فرماتا ہے، جن کے بغیر اسلام کا کلی تصور نا مکمل ہے ۔
ق اسلام سیاست ہی کا نام ہے؟
دوسری انتہا پسندی بعض ایسے افراد نے اختیار کر لی جنہوں نے سیکولرزم کی تردید اس شدت کے ساتھ کی ، کہ سیاست ہی کو اسلام کا مقصود اصلی قرار دے دیا، یعنی یہ کہا کہ اسلام کا اصل مقصد ہی یہ ہے کہ دنیا میں ایک عادلانہ سیاسی نظام قائم کیا جائے اور اسلام کے باقی سب احکام اس مقصود اصلی کے تابع ہیں ؛ لہذا جو شخص سیاست کے میدان میں دین کی سربلندی کے لیے کام کر رہا ہے بس وہ ہے جس نے دین کے مقصود اصلی کو پا لیا ہے ، اور جو لوگ سیاست سے ہٹ کر اصلاح نفس ، تعلیم ، تبلیغ یا اصلاح معاشرہ کے کاموں میں لگے ہوئے ہیں اور سیاست میں ان کا کوئی کردار نہیں ہے ، وہ گویا تنگ نظر اور دین کے اصل مقصد سے غافل ہیں ۔
اسلام میں عبادت و سیاست کے درمیان افراط و تفریط
یہ دونوں نظریات افراط و تفریط کے نظریات ہیں ، جو اسلام میں سیاست کے صحیح مقام سے ناواقفیت پر مبنی ہے ، حقیقت یہ ہے کہ اسلام کی ہدایات ، تعلیمات اور احکام زندگی کے ہر شعبے سے متعلق ہیں ، جن میں سیاست بھی داخل ہے ؛ لیکن سیاست کو مقصود اصلی قرار دے کر باقی احکام کو اس کے تابع کہنا بھی غلط ہے ۔
اس کی مثال یوں سمجھیے کہ: جیسے اسلام نے تجارت کے بارے میں بڑے تفصیلی احکام عطا فرمائے ہیں، لیکن اگر کوئی شخص یہ کہنے لگے کہ تجارت ہی اسلام کا اصل مقصود ہے ، تو یہ بالکل غلط بات ہوگی، یا مثلا نکاح کے بارے میں اسلام نے مفصل احکام دیے ہیں ، لیکن ان احکام کی وجہ سے یہ ہرگز نہیں کہا جا سکتا کہ نکاح ہی اسلام کا اصل مقصود ہے ۔
بالکل اسی طرح اسلام نے سیاست کے بارے میں بھی اصولی ہدایات اور احکام عطا فرمائے ہیں ؛ لیکن اس کی وجہ سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ سیاست ہی اسلام کا مقصود اصلی ہے۔
اسلامکا مقصد اصلی عبادت
اللہ تبارک و تعالی نے انسان کی تخلیق کا مقصد واضح طور پر اس آیت کریمہ میں بیان فرمایا ہے کہ: وما خلقت الجن والانس الا ليعبدون. ( سوره الذاريات ٥٦) ترجمہ: اور میں نے انسان اور جنات کو کسی اور مقصد سے نہیں ؛ بلکہ اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں ۔
عبادت کسے کہتے ہیں ؟
عبادت کے معنی ہیں بندگی اور بندگی کے مفہوم میں پرستش کے تمام مشروع طریقے بھی داخل ہیں اور زندگی کے ہر معاملے میں اللہ تعالی کی اطاعت بھی۔ یوں سمجھیے کہ عبادت کا لفظ عبد سے نکلا ہے جس کے لفظی معنی غلام کے ہیں ، جو شخص کسی کا غلام ہوتا ہے وہ اپنے آقا کے ہر حکم کی اطاعت کا پابند ہے ؛ لیکن وہ اپنے آقا کی پرستش نہیں کرتا ، اس لیے اس کی اطاعت کو عبادت نہیں کہتے ؛ لیکن اللہ تعالی کے ساتھ اس کے بندوں کا تعلق اطاعت کا بھی ہے اور پرستش کا بھی ، اسی لیے ان کے اس عمل کو عبادت کہا جاتا ہے ۔
عبادت کی 2 قسمیں
پھر عبادت کی بھی دو قسمیں ہیں : ایک وہ عبادتیں جن کا مقصود اللہ تعالی کی پرستش کے سوا کچھ اور نہیں مثلا نماز روزہ حج زکوۃ قربانی وغیرہ ، یہ براہ راست عبادتیں ہیں۔ اور دوسری قسم عبادات کی وہ ہے جس میں کوئی عمل کسی دنیاوی فائدے کے لیے کیا جاتا ہے ؛ لیکن جب وہ عمل اللہ تعالی کے احکام کے مطابق کیا جاتا ہے اور ان احکام کی پابندی میں نیت اللہ تعالی کی رضا جوئی کی ہوتی ہے تو وہ بالواسطہ عبادت بن جاتا ہے ۔
تجارت عبادت کب؟
مثلا تجارت اگر اللہ تعالی کے احکام کی پابندی کے ساتھ کی جائے اور اس پابندی میں اللہ تعالی کی رضا جوئی مقصود ہو، تو وہ بھی اس معنی میں عبادت بن جاتی ہے کہ اس پر ثواب ملتا ہے ؛ لیکن یہ بالواسطہ عبادت ہے، کیونکہ تجارت اپنی ذات میں عبادت نہیں تھی ؛ بلکہ وہ اطاعت اور حسن نیت کے واسطے سے عبادت بنی ہے ۔
سیاست عبادت کب؟
یہی حال سیاست اور حکومت کا بھی ہے کہ سیاست اور حکومت کی کاروائیاں اللہ تعالی کے احکام کے مطابق اسی کی رضا جوئی کے لیے انجام دی جائیں ، تو وہ بھی عبادت ہیں ؛ لیکن بالواسطہ عبادت ، کیونکہ یہ کاروائیاں تجارت کی طرح اپنی ذات میں عبادت نہیں تھیں؛ بلکہ اطاعت اور حسن نیت کے واسطے سے عبادت بنی ہیں ۔
لہذا ! جب اللہ تعالی نے انسان کی تخلیق کا مقصد عبادت کو قرار دیا ، تو اس میں دونوں قسم کی عبادتیں داخل ہیں اور ان کا مجموعہ انسان کی تخلیق کا مقصد ہے۔ اب ظاہر ہے کہ جو عبادت براہ راست اور بلاواسطہ عبادت کہلانے کی مستحق ہیں ان کا مرتبہ بالواسطہ عبادتوں کے مقابلے میں زیادہ بلند ہے، اس لیے کوئی اس میں زیادہ وقت لگا رہا ہے اور اس پر زیادہ توجہ دے رہا ہے ۔
کسی نے دوسرا شعبہ اختیار کر لیا ہے اس میں وہ اپنا وقت زیادہ لگا رہا ہے اور اس پر زیادہ توجہ دے رہا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں۔
لیکن حرج اس میں ہے کہ کوئی یہ سمجھے کہ میں نے جو شعبہ اختیار کیا ہے ، وہ دین کا مقصود اصلی ہے، جبکہ وہ مقصود اصلی نہ ہو ؛ بلکہ جس طرح دین کے بہت سے کام ہیں، اسی طرح وہ بھی ایک کام ہے۔ مثلا ایک شخص نے سیاست کے شعبے کو اس لیے اختیار کیا کہ میں اپنے حالات کے مطابق اس لائن میں خدمت کرنے کو زیادہ بہتر طریقے پر کر سکتا ہوں اور اپنے آپ کو اس کام کے لیے لگاتا ہوں، تو بے شک لگائے ؛ لیکن اگر یہ کہے کہ سیاست سارے دین کا مقصود اصلی ہے، تو یہ غلط بات ہے ، ورنہ کوئی شخص اپنے لیے سیاست کا راستہ اختیار کرتا ہے اور اس کے لیے جدوجہد کرتا ہے تو وہ بھی عین دین کا حصہ ہے۔
اسلام اور سیاسی نظریات صفحہ 162 تا 171
اسلام اور دور حاضر کے شبہات و مغالطے صفحہ ١٢٠-١٢٢