اعتکاف کی فضیلت و اہمیت – اعتکاف کی حقیقت

اعتکاف کی حقیقت کیا ہے؟

اعتکاف کی فضیلت : دنیاوی کاروبار، معاشی الجھنوں ، اور ذاتی مصروفیات میں الجھ کر انسان اپنے مقصد تخلیق سے غافل ہو جاتا ہے ، شیطانی اثرات اس کے دل و دماغ پر اس طرح چھا جاتے ہیں ، کہ اسے کچھ اور سوچنے اور غور کرنے کی سدھ ہی نہیں رہتی ، رفتہ رفتہ یہ غفلت اتنی بڑھتی ہے کہ نماز کے لیے مسجد میں کچھ دیر کے لیے جانے اور روزہ زکوۃ وغیرہ عبادتوں کی انجام دہی سے بھی وہ ختم نہیں ہو پاتی ، نماز دنیاوی خیالات میں گزرتی ہے اور روزہ لایعنی فضول باتوں کی نظر ہو جاتا ہے ۔

یہ صورتحال زندہ دلان امت کے لیے سوہان روح اور عاشقانِ توحید کے لیے درد و کرب کا سامان بن جاتی ہے ، مالک الملک کی شاہانہ جاہ و جلال جہاں اس کے دربار میں آ پڑے رہنے سے مانع ہوتا ہے ، وہیں ارحم الراحمین کی رحمت بے کراں فکر مندوں کے لیے امید کے دیے جلاتی ہے ، اور بیم و رجا کے عالم میں غفلت کی وادیوں میں چکر لگانے والا انسان اپنے حقیقی آقا کے دربار میں زبان حال سے یہ کہتے ہوئے فروکش ہو جاتا ہے :

پھر جی میں ہے کہ در پہ اسی کے پڑا رہوں

سر زیرِ بارِ منت دربہ کیے ہوئے

اسی جذبہ ، اسی عشق ، اسی امید اور منت شناسی کا نام اعتکاف ہے۔

اعتکاف کی تعریف اور اس کی قسمیں

اعتکاف کہتے ہیں مسجد میں اعتکاف کی نیت کر کے ٹھہرنے کو ، حنفیہ کے نزدیک اس کی تین قسمیں ہیں ایک (١)واجب جو منت اور نظر کی وجہ سے ہو ،جیسے یہ کہے کہ اگر میرا فلاں کام ہو گیا تو اتنے دنوں کا اعتکاف کروں گا ، یا بغیر کسی کام پر موقوف کرنے کے یوں ہی کہ لے کہ میں نے اتنے دنوں کا اعتکاف اپنے اوپر لازم کر لیا ، یہ واجب ہوتا ہے ، اور جتنے دنوں کی نیت کی ہے اس کا پورا کرنا ضروری ہے۔ 

دوسری قسم (٢) سنت ہے ، جو رمضان المبارک کے آخر عشرہ کا ہے ، کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت شریفہ ان ایام کے اعتکاف فرمانے کی تھی۔

  تیسری قسم (٣) اعتکاف نفل ہے ۔ جس کے لیے نہ کوئی وقت ، نہ ایام کی مقدار ، جتنے دن کا جی چاہے کر لے؛ حتی کہ اگر کوئی شخص تمام عمر کے اعتکاف کی نیت کر لے تب بھی جائز ہے  ؛ البتہ کمی میں اختلاف ہے، کہ امام صاحبؒ کے نزدیک ایک دن سے کم کا جائز نہیں ؛ لیکن امام محمد ؒ کے نزدیک تھوڑی دیر کے لیے بھی جائز ہے ، اور اسی پر فتوی ہے ۔ اس لیے ہر شخص کے لیے مناسب ہے کہ جب مسجد میں داخل ہو اعتکاف کی نیت کر لیا کرے ، کہ اتنے نماز وغیرہ میں مشغول رہے اعتکاف کا ثواب بھی  ملتا رہے۔

( فضائل اعمال حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا کاندھلوی رحمۃاللہ علیہ ، فضائل رمضان صفحہ ٥٠)

معتکف کی مثال

معتکف کی مثال اس شخص کی سی ہے کہ کسی کے در پر جا پڑے کہ اتنی میری درخواست قبول نہ ہو ، ٹلنے کا نہیں:

نکل جائے دم تیرے قدموں کے نیچے 

یہی دل کی حسرت یہی ارزو ہے

اگر حقیقتاً یہی حال ہو ، تو سخت سے سخت دل والا بھی پسیجتا ہے، اور اللہ جل شانہ کی کریم ذات تو بخشش کے لیے بہانہ ڈھونڈتی ہے ؛ بلکہ بے بہانہ مرحمت فرماتے ہیں ۔:

تو وہ داتا ہے کہ دینے کے لیے

در تیری رحمت کے ہیں ہر دم کھلے

خدا کے دین کا موسی سے پوچھیے احوال

کہ آگ لینے کو جائیں پیمپری مل جائے

اس لیے جب کوئی شخص اللہ کے دروازے پر دنیا سے منقطع ہو کر جا پڑے ، تو اس کے نوازے جانے میں کیا تأمل ہو سکتا ہے ؟ اور اللہ جل شانہ جس کو اکرام فرما دیں اس کے بھرپور خزانوں کا بیان کون کر سکتا ہے ؟اس کی آگے کہنے سے قاصر ہوں کہ نا مرد بلوغ کی کیا ہمکیفیت بیان کر سکتا ہے ؟ مگر ہاں یہ ٹھان لے کہ:

جس گل کو دل دیا ہے جس پھول پر فدا ہوں

یا وہ بغل میں آئے یا جاں قفس سے چھوٹے۔

اعتکاف کا مقصد

حضرت علامہ ابن قیمؒ کہتے ہیں : کہ اعتکاف کا مقصد اور اس کی روح دل کو اللہ کی پاک ذات کے ساتھ وابستہ کر لینا ہے کہ سب طرف سے ہٹ کر اسی کے ساتھ مجتمع ہو جائے، اور ساری مشغولیت کے بدلے میں اسی کی پاک ذات سے مشغول ہو جائے ، اور اس کے غیر کی طرف سے منقطع ہو کر ایسی طرح اس میں لگ جاوے کہ خیالات ، تفکرات سب کی جگہ اس کا پاک ذکر ، اس کی محبت سما جاوے ؛

  حتی کہ مخلوق کے ساتھ انس کے بدلے اللہ کے ساتھ انس پیدا ہو جاوے ، کہ یہ انس قبر کی وحشت میں کام دے ، کہ اس دن اللہ کی پاک ذات کے سوا کوئی مونس ، نہ دل بہلانے والا  ، اگر دل اس کے ساتھ مانوس ہو چکا ہوگا تو کس قدر لذت سے وقت گزرے گا؟

دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن

بیٹھا رہوں تصور جانا کیے ہوئے

۔ فضائل اعمال صفحہ ٥٠-٥١

اعتکاف کی فضیلت

اعتکاف کی فضیلت: واقعہ یہ ہے کہ رمضان المبارک کے متبرک ، پر مسعود اوقات کی قدر اعتکاف کے بغیر کامل طور پر نہیں ہو سکتی ، آدمی کتنا ہی شوقین ہو ، کسی کام میں مستقل مشغول رہنے کے باعث طبیعت میں فطری اکتاہٹ پیدا ہو ہی جاتی ہے ، اور عبادت کا تسلسل موقوف ہو جاتا ہے ؛ لیکن اعتکاف ایسی عبادت ہے کہ ، معتکف اگر مسجد میں خالی بھی بیٹھا رہے پھر بھی عبادت گزاروں میں شمار ہوتا ہے ، اور معتقف کا کوئی لمحہ ضائع نہیں ہوتا ، اور مسجد میں بیٹھے بیٹھے اسے بے شمار اعمال صالحہ کا ثواب ملتا رہتا ہے ؛

چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ حضرت  نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل فرماتے ہیں :  کہ معتقف گناہوں سے محفوظ رہتا ہے اور اسے ان تمام نیکیوں کا جنہیں اعتکاف کے سبب انجام نہیں دے سکتا ، اتنا ہی بدلہ عطا کیا جاتا ہے ، جتنا نیکیاں کرنے والے کو ملتا ہے۔ : اِنَّ رَسُولَ اللهِ قَالَ فِي الْمُعْتَكِفِ هُوَ يَعْتَكِفُ الذُّنُوبَ وَيُجْزِى لَهُ مِنَ الْحَسَنَاتِ كَعَامِلِ الْحَسَنَاتِ .( مشکوٰۃ شریف ١/١٨٣)

ایک دوسری روایت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کیا گیا ہے : کہ جو شخص اللہ رب العزت کی خوشنودی کی تلاش میں ایک دن کا اعتکاف کرتا ہے ، تو اللہ تعالی اس کے اور جہنم کے درمیان تین ایسی بڑی خندقیں حائل فرما دیتے ہیں ، جو دنیا جہاں سے زیادہ چوڑی اور وسیع ہیں:وَمَنِ اعْتَكَفَ يَوْمًا اِبْتِغَاءَ وَجْهِ اللَّهِ جَعَلَ اللَّهُ يْنَهُ وَبَيْنَ النَّارِ ثَلَثَ خَنَادِقَ اَبَعْدَ مَا بَيْنَ الْخَافِقَيْنِ – (الترغيب والترهيب ۹۶/۲)

رمضان المبارک کے آخری عشرہ کا اعتکاف

رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں مردوں کے لیے مسجدِ جماعت میں اعتکاف کرنا سنت موکدہ ہے۔ ہر آبادی میں کم از کم کسی ایک شخص کا اعتکاف کرنا سنت موکدہ ہے ، اگر کسی ایک شخص نے بھی یہ سنت ادا نہیں کی تو پوری آبادی والے تارک سنت ہوں گے ۔ اور اگر آبادی کی کسی بھی مسجد میں ایک شخص بھی اعتکاف کر لے گا تو ساری بستی والوں کی طرف سے سنت کی ادائیگی ہو جائے گی ؛ لیکن بہتر یہ ہے کہ ہر مسجد میں اعتکاف کا اہتمام کیا جائے کیونکہ بعض علماء نے ہر محلہ والوں کے لیے اعتکاف کو سنت قرار دیا ہے۔

( کتاب المسائل جلد دوم صفحہ ١٦٠)

حضور ﷺ کا اعتکاف

حضور ﷺ کا اعتکاف: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت شریفہ اعتکاف کی ہمیشہ رہی ہے ، اس مہینے میں تمام مہینے کا اعتکاف فرمایا اور جس سال وصال ہوا ہے اس سال  ٢٠ روز کا اعتکاف فرمایا تھا ؛ لیکن اکثر عادت شریفہ چونکہ آخر عشرہ ہی کے اعتکاف کی رہی ہے اس لیے علماء کے نزدیک سنت موکدہ وہی ہے۔

) عَنْ أَبِي سَعِيدِنِ الْخُدُرِي أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اعْتَلَفَ الْعَشْرَ الْأَوَّلَ مِنْ رَمَضَانَ ثُمَّ اعْتَكَفَ الْعَشْرَ الْأَوْسَطَ فِي قُبَّةِ تَرْكِيَّةِ ثُمَّ اطَّلَعَ رَأْسَه فَقَالَ إِلَى اعْتَلِفُ الْعَشْرَ الْأَوَّلَ الْتَمِسُ هَذِهِ اللَّيْلَةَ ثُمَّ اعْتَلِفُ الْعَشْرَ الْاَوَسُطَ ثُمَّ أُنِيتُ فَقِيلَ لِي إِنَّهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ فَمَنْ كَانَ اعْتَلَفَ مَعِيَ فَلْيَعْتَكِفِ الْعَشْرَ الأَوَاخِرَ فَقَد أُرِيتُ هُذِهِ اللَّيْلَةَ ثُمَّ أُنْسِيتُهَا وَقَد رَأَيْتُنِي اسْجُدُ فِي مَاءٍ وَطِينِ مِنْ صَبِيحَتِهَا فَالْتَمِسُوهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ وَالتَمِسُوا فِى كُلِّ وَتُرِ قَالَ فَسُطِرَتِ السَّمَاء تِلْكَ اللَّيْلَةَ وَكَانَ الْمَسْجِدُ عَلى عَوِيشِ فَوَكَفَ الْمَسْجِدُ فَبَصَرَتْ عَيْنايَ رَسُولَ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلى جَبْهَتِهِ اثرُ الْمَاءِ وَالطِينِ مِنْ صَبِيحَة احدى وَعِشْرِينَ (مشكوة عن المتفق عليه)

ترجمہ: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں : کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک کے پہلے عشرے میں اعتکاف فرمایا اور پھر دوسرے عشرے میں بھی ، پھر ترکی خیمے سے جس میں اعتکاف فرما رہے تھے باہر سر نکال کر ارشاد فرمایا : کہ میں نے پہلے عشرے کا اعتکاف شب قدر کی تلاش اور اہتمام کی وجہ سے کیا تھا ، پھر اسی کی وجہ سے دوسرے عشرے میں کیا ، پھر مجھے کسی بتلانے والے (یعنی فرشتہ ) نے بتلایا کہ وہ رات آخر عشرے میں ہے ،

لہذا جو لوگ میرے ساتھ اعتکاف کر رہے ہیں وہ آخری عشرے کا بھی اعتکاف کریں ، مجھے یہ رات دکھلا دی گئی تھی ، پھر بھلا دی گئی ، اس کی علامت یہ ہے کہ میں نے اپنے آپ کو اس رات کے بعد کی صبح میں کیچڑ میں سجدہ کرتے دیکھا ؛ لہذا اب اس کو اخیر عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو ۔ راوی کہتے ہیں : کہ اس رات میں بارش ہوئی اور مسجد چھپر کی تھی وہ ٹپکی ، اور میں نے اپنی آنکھوں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی مبارک پر کیچڑ کا اثر 21 کی صبح کو دیکھا۔

معاشرے میں اعتکاف سے بے رغبتی

اعتکاف کے اتنے سارے فوائد کے باوجود غور کرنے کی بات یہ ہے کہ آج ہمارا معاشرہ اس عبادت سے محروم ہوتا جا رہا ہے ، رمضان المبارک میں جماعت کی نمازوں اور تراویح وغیرہ کا تو ماشاءاللہ کچھ اہتمام ہو بھی جاتا ہے ؛ لیکن سنت اعتکاف کی ادائیگی کی طرف رجحان بہت کم دکھائی دیتا ہے ، اور اس کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہمیں عید کی تیاریوں میں اتنا وقت لگانا چاہتے ہیں کہ کوئی ارمان باقی نہ رہ جائے ۔

اور یہ سمجھتے ہیں کہ اعتکاف کی وجہ سے سارے ارمان پورے نہ ہو سکیں گے ، تجارت پیشہ لوگ تو اعتکاف کا خیال بھی دل میں نہیں لاتے ، اس لیے کہ یہی ان کی سال بھر کی کمائی کا وقت ہے، تو دنیا کی کمائی سے محرومی کا اتنا خیال ہے مگر اس رمضان کے سیزن میں رحمت خداوندی کے حصول میں جو کمی رہ جاتی ہے اس کا کوئی احساس نہیں ۔

ہر گھر کا ایک فرد اعتکاف میں

ہمارا مقصد یہ نہیں ہے ، کہ سب لوگ ایک ساتھ اعتکاف کر لیں ؛ بلکہ مقصود یہ ہے کہ ہر گھرانے والے اس طرح کا نظام بنائے کہ ان کے گھر کا ایک فرد اعتکاف کیا کریں ، اگر تین بھائی ہیں تو ایک اعتکاف کرے اور بقیہ بھائی اس کی خبرگیری کریں ، اگر دکان پر کئی لوگ بیٹھنے والے ہیں تو ایک آدمی کو ہر سال اعتکاف کے لیے متعین کر دیں،  انشاءاللہ تعالی اس طریقے سے اس عبادت کی قدر پیدا ہوگی اور اس کے اثرات پورے گھرانے میں محسوس کیے جائیں گے ۔

نوجوانوں کی اعتکاف میں بیٹھنے کی تشکیل

خاص کر نوجوانوں کو اس عبادت کی طرف متوجہ ہونے کی ضرورت ہے،  اعتکاف ان کے لیے ماہ مبارک میں بے شمار گناہوں سے محفوظ رہنے کا ذریعہ بنے گا اور ان کو دینی تربیت کا موقع میسر آئے گا ۔ عشرہ اخیرہ سے پہلے مساجد میں اعتکاف کے لیے باقاعدہ تشکیل ہونی چاہیے ؛ تاکہ اس عظیم عبادت کی طرف عمومی رجحان ہو اور مساجد اعتکاف کرنے والوں سے مامور ہو جائیں ۔ اللہ رب العزت ہمیں خصوصی توفیق مرحمت فرمائے امین۔ کتاب المسائل جلد دوم صفحہ ١٥٩-٦٠)

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top