جب تقدیر میں سب کچھ لکھ دیا گیا ہے تو عمل کا کیا فائدہ ؟
محمد امتیاز پلاموی مظاہری
افادات : شیخ الاسلام حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب حفظہ اللہ تعالٰیٰ
سوال
بعض لوگ کہتے ہیں کہ جب تقدیر میں سب کچھ لکھ دیا گیا ہے کہ کون شخص جنتی ہے اور کون سا شخص جہنمی ہے تو اب عمل کرنے سے کیا فائدہ ؟ ہوگا تو وہی جو تقدیر میں لکھا ہے۔
جواب
خوب سمجھ لیجئے کہ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تم وہی عمل کرو گے جو تقدیر میں لکھا ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تقدیر میں وہی بات لکھی ہے جو تم لوگ اپنے اختیار سے کرو گے اس لیے کہ تقدیر تو علم الہی کا نام ہے اور اللہ تعالی کو پہلے سے پتہ تھا کہ تم اپنے اختیار سے کیا کچھ کرنے والے ہو ؛ لہذا وہ سب اللہ تعالی نے لوح محفوظ میں لکھ دیا، لیکن تمہارا جنت میں جانا یا جہنم میں جانا درحقیقت تمہارے اختیاری اعمال ہی کی بنیاد پر ہوگا۔
یہ بات نہیں ہے کہ انسان عمل وہی کرے گا جو تقدیر میں لکھا ہے؛ بلکہ تقدیر میں وہی لکھ دیا گیا ہے جو انسان اپنے اختیار سے عمل کرے گا ۔ اللہ تعالی نے انسان کو اختیار دیا ہے اور اس اختیار کے مطابق انسان عمل کرتا رہتا ہے، اب یہ سوچنا کہ تقدیر میں تو سب کچھ لکھ دیا گیا ہے لہذا ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جاؤ یہ درست نہیں ہے ؛ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث بیان فرمائی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے پوچھ لیا : فَفِيْمَا الْعَمَلُ يَا رَسُوْلَ اللّٰه ؟ جب فیصلہ ہوچکا ہے کہ فلاں شخص جنتی اور فلاں شخص جہنمی تو پھر عمل کرنے سے کیا فائدہ؟ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اِعْمَلُوْا فَكُلٌّ مُيَسَّرٌ لِّمَا خُلِقَ لَه. یعنی عمل کرتے رہو، اس لیے کہ ہر انسان کو وہی کام کرنا ہوگا جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا تھا؛ لہذا تم اپنے اختیار کو کام میں لاکر عمل کرتے رہو ۔ ( اصلاحی خطبات ٨/١٦٧ _ اسلام اور دور حاضر کے شبہات و مغالطے صفحہ ٣٤-٣٥)
جب تقدیر میں سب کچھ لکھا ہوا ہے تو تدبیر کی کیا ضرورت ہے؟
اور یہ تقدیر عجیب و غریب عقیدہ ہے جو اللہ تعالی نے ہر صاحب ایمان کو عطا فرمایا ہے، اس عقیدے کو صحیح طور پر نہ سمجھنے کی وجہ سے لوگ طرح طرح کی غلطیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
پہلی بات یہ ہے کہ کسی واقعے کے پیش آنے سے پہلے تقدیر کا عقیدہ کسی انسان کو بے عملی پر آمادہ نہ کرے ، مثلاً ایک انسان تقدیر کا بہانہ کر کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائے اور یہ کہے کہ جو تقدیر میں لکھا ہے وہ ہو کر رہے گا میں کچھ نہیں کرتا ، یہ عمل حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے خلاف ہے ؛ بلکہ حکم یہ ہے کہ جس چیز کے حاصل کرنے کی جو تدبیر ہے اس کو اختیار کرو اس کے اختیار کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑو ۔
دوسری بات یہ ہے کہ تقدیر کے عقیدہ پر عمل کسی واقعے کے پیش آنے کے بعد شروع ہوتا ہے مثلا کوئی واقعہ پیش آ چکا تو ایک مومن کا کام یہ ہے کہ وہ یہ سوچے کہ میں نے جو تدبیریں اختیار کرنی تھی وہ کر لی ، اور اب جو واقعہ ہماری تدبیر کے خلاف پیش آیا وہ اللہ تعالی کا فیصلہ ہے ہم اس پر راضی ہیں؛ لہذا واقعہ پیش آ چکنے کے بعد اس پر بہت زیادہ پریشانی بہت زیادہ حسرت اور تکلیف کا اظہار کرنا اور یہ کہنا کہ فلاں تدبیر اختیار کر لیتا تو یوں ہو جاتا یہ بات عقیدہ تقدیر کے خلاف ہے، ان دو انتہاؤں کے درمیان اللہ تعالی نے ہمیں راہ اعتدال یہ بتا دی کہ جب تک تقدیر پیش نہیں آئی اس وقت تک تمہارا فرض ہے کہ اپنے سے پوری کوشش کر لو اور احتیاطی تدابیر بھی اختیار کر لو ؛ اس لیے کہ ہمیں یہ نہیں معلوم کہ تقدیر میں کیا لکھا ہے۔ ( اصلاحی خطبات جلد ٧/٢٠٧- اسلام اور دور حاضر کے شبہات و مغالطے صفحہ ٣٥)
تقدیر کی حقیقت اور تقدیر کا صحیح مفہوم
تقدیر کی حقیقت کیا ہے؟ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ ایک مرتبہ شام کے دورے پر تشریف لے جا رہے تھے راستے میں آپ کو اطلاع ملی کہ شام کے علاقے میں طاعون کی وبا پھوٹ پڑی ہے یہ اتنا سخت طاعون تھا کہ انسان بیٹھے بیٹھے چند گھنٹوں میں ختم ہو جاتا تھا ، اس طاعون میں ہزارہا صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین شہید ہوئے ہیں، آج بھی اردن میں حضرت عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالی عنہ کے مزار کے پاس پورا قبرستان ان صحابہ کرام کی قبروں سے بھرا ہوا ہے جو طاعون میں شہید ہوئے۔
بہرحال! حضرت فاروق اعظم نے صحابہ کرام سے مشورہ کیا کہ وہاں جائیں یا نہ جائیں اور واپس چلے جائیں ؟ اس وقت حضرت عبدالرحمن بن عوف نے ایک حدیث سنائی کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر کسی علاقے میں طاعون کی وبا پھوٹ پڑے تو جو لوگ اس علاقے سے باہر ہیں وہ اس علاقے کے اندر داخل نہ ہوں اور جو لوگ اس علاقے میں مقیم ہیں وہ وہاں سے نہ بھاگیں ، یہ حدیث سن کر حضرت فاروق اعظم نے فرمایا کہ اس حدیث میں آپﷺ کا صاف ارشاد ہے کہ ایسے علاقے میں داخل نہیں ہونا چاہیے ؛ لہذا آپؓ نے وہاں جانے کا ارادہ ملتوی کر دیا، اس وقت ایک صحابی غالباً حضرت ابو عبیدہ بن جراحؓ تھے انہوں نے حضرت فاروق اعظمؓ سے فرمایا: أَ تَفِرُّ مِنْ قَدْرِ اللّٰه ؟
کیا آپ اللہ کی تقدیر سے بھاگ رہے ہیں؟ یعنی اگر اللہ تعالی نے اس طاعون کے ذریعے موت کا آنا لکھ دیا ہے تو موت آ کر رہے گی اور اگر تقدیر میں موت نہیں لکھی تو جانا اور نہ جانا برابر ہے۔ جواب میں حضرت فاروق اعظم نے فرمایا: لَوْ غَيْرُكَ قَالَها يَا اَبَا عُبَيْدَه. ! اے ابو عبیدہ! اگر آپ کے علاوہ کوئی شخص یہ بات کرتا تو میں اس کو معذور سمجھتا ؛ لیکن آپ تو پوری حقیقت سے آگاہ ہیں، آپ یہ کیسے کہہ رہے ہیں کہ تقدیر سے بھاگ رہا ہوں؟ پھر فرمایا کہ: نَعَمْ نَفِرُّ مِنْ قَدْر اللّٰهِ اِلىٰ قَدْرِ اللّٰه. ہاں! ہم اللہ کی تقدیر سے اللہ کی تقدیر کی طرف بھاگ رہے ہیں ۔
مطلب یہ تھا کہ جب تک واقعہ پیش نہیں آیا ، اس وقت تک ہمیں احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا حکم ہے، اور ان احتیاطی تدابیر کو اختیار کرنا عقیدہ تقدیر کے خلاف نہیں ؛ بلکہ عقیدہ تقدیر کے اندر داخل ہے ؛ کیوں کہ نبی کریم ﷺ نے حکم فرمایا ہے کہ احتیاطی تدابیر اختیار کرو ؛ چنانچہ اس حکم پر عمل کرتے ہوے واپس جا رہے ہیں ، لیکن اس کے باوجود اگر تقدیر میں ہمارے لیے طاعون کی بیماری میں مبتلا ہونالکھا ہے تو اس کو ہم ٹال نہیں سکتے ، لیکن اپنی تدبیر ہمیں پوری کرنی چاہیے ۔
یہ ہے ایک مؤمن کا عقیدہ کہ اپنی طرف سے تدبیر پوری کی ؛ لیکن تدبیر کرنے کے بعد معاملہ اللہ تعالٰیٰ کے حوالے کر دیا اور یہ کہہ دیا کہ یا اللہ!ہمارے ہاتھ میں جو تدبیر تھی وہ تو ہم نے اختیار کر لی ، اب معاملہ آپ کے اختیار میں ہے ، آپ کا جو فیصلہ ہوگا ، ہم اس پر راضی رہیں گے ، ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ لہذا واقعہ کے پیش آنے سے پہلے عقیدہ تقدیر کسی کو بے عملی پر آمادہ نہ کرے ، جیسے بعض لوگ عقیدہ تقدیر کو بے عملی کا بہانہ بنا لیتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ جو تقدیر میں لکھا ہے وہ تو ہوکر رہے گا ؛ لہذا ہاتھ پر برکھ کر بیٹھ جائیں ، کام کیوں کریں ،؟ یہ درست نہیں ، کیوں کہ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ اپنی تدبیر کرتے رہو ، ہاتھ پاؤں ہلاتے رہو لیکن ساری تدابیر اختیار کرنے کے بعد اگر واقعہ اپنی مرضی کے خلاف پیش ا جائے تو اس پر راضی رہو لیکن اگر تم اپنی رضامندی کا اظہار نہ کرو بلکہ یہ کہہ دو کہ یہ فیصلہ تو بہت غلط ہوا بہت برا ہوا تو اس کا نتیجہ سوائے پریشانی میں اضافے کے کچھ نہیں ہوگا اس لیے کہ جو واقعہ پیش ا چکا ہے وہ بدل نہیں سکتا اور اخر کار تمہیں سر تسلیم خم کرنا ہی پڑے گا اس لیے پہلے دن ہی اس کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ جو اللہ تعالی کا فیصلہ ہے ہم اس پر راضی ہیں۔ ( اصلاحی خطبات جلد ٧/٢٠٨– اسلام اور دور حاضر کے شبہات و مغالطے صفحہ ٣٦)