ختمِ سحری کے بعد اذان فجر کب ہونی چائیے ؟

ختمِ سحری کے بعد اذان فجر کب ہونی چائیے ؟

محمد امتیاز پلاموی ، مظاہری

رمضان المبارک کے مقدس مہینہ میں اذانِ فجر عام طور سے اور دنوں کے مقابلے میں جلد پڑھی جاتی ہے اور فجر کی نماز بھی دیگر ایام کے مقابلے میں بہت جلد پڑھی جاتی ہے، بہت سی جگہیں ایسی ہیں جہاں پر ختمِ سحری کا جو وقت کلینڈر میں لکھا ہوتا ہے وہ وقت ہونے کے کچھ ہی دیر کے بعد فجر کی اذان پڑھ دی جاتی ہے ؛ جبکہ کہیں پر پانچ منٹ کا احتیاط کہیں پر 10 منٹ کا احتیاط کیا جاتا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ ختمِ سحری کے بعد اذانِ فجر کتنے منٹ بعد پڑھی جائے ؟ ختمِ سحری ہوتے ہی پڑھ دی جائے یا کچھ دیر کا انتظار کیا جانا چاہیے اور اگر کچھ دیر انتظار کیا جائے، وقفہ کیا جائے تو کتنی دیر کا وقفہ ہونا چاہیے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ عام طور سے رمضان المبارک کے کیلنڈروں میں ختم سحری کا جو وقت لکھا جاتا ہے اس میں احتیاطا ایک دو منٹ پہلے ختم سحر لکھا جاتا ہے، مزید یہ کہ یہ اوقات ظنی ہوتے ہیں یقینی نہیں ہوتے ، اس لیے ختم سحری کے کم سے کم 10 منٹ کے بعد فجر کی اذان ہونی چاہیے تاکہ فجر کی اذان اپنے وقت پر ہو اور تمام احتیاطی پہلؤں کو لیے ہوئے ہو اس لیے کہ اذان کا مسئلہ یہ ہے کہ وقت سے پہلے اگر اذان پڑھ دی جائے تو وہ اذان معتبر نہیں ہوتی، پھر سے وقت پر اذان پڑھنا ضروری ہوتا ہے ؛ اس لیے احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ ختم سحری کے دس منٹ کے بعد اذان پڑھی جائے ۔ اس سلسلے میں دارالعلوم دیوبند کا ایک مفصل فتوی پیش کیا جا رہا ہے ۔

سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسائل ذیل کے بارے میں (١) سہارن پور اور اطراف و جوانب میں اوقات نماز کے لیے رحیمی دوامی جنتری رائج ہے ، اس کے پہلے صفحے پر ہدایت درج ہے کہ اس جنتری کے اوقات سے احتیاطاً کم از کم پانچ منٹ بعد اذان کہی جائے ، اس احتیاط کا کیا حکم ہے اور اس احتیاط پر عمل کرنا ضروری ہے یا نہیں؟

(٢) دیکھا یہ گیا ہے کہ رمضان المبارک میں اکثر مساجد میں اذان فجر جنتری میں درج بالکل ابتدائی وقت پر ہوتی ہے اور اذان مکمل ہوتے ہی نمازی حضرات فجر کی سنتوں کی نیت باندھ لیتے ہیں جبکہ ابھی احتیاط کے بمشکل دو منٹ گزرے ہوتے ہیں اس صورت میں ایسی اذان اور سنتوں کے بارے میں کیا حکم ہے؟ (٣) اور اگر پانچ منٹ کی بجائے تین منٹ کی احتیاط کی جائے تو اس کا کیا حکم ہے؟

جواب دارالافتاء دارالعلوم دیوبند

بسم اللہ الرحمن الرحیم : fatwa ID : 946-1049/N=10/1437

(١) : رحیمی دوامی جنتری کے حساب سے اذان فجر میں پانچ منٹ کی احتیاط ناکافی ہے بلکہ کم از کم 10 منٹ کی احتیاط چاہیے اور یہ احتیاط لازم ہے ، محض مستحب نہیں ہے کیونکہ جدید فلکی حسابات کی روشنی میں جو جنتریاں تیار کی گئی ہیں جیسے جناب عبدالحفیظ منیار صاحب سورت کی برائے دیوبند تیار کردہ جنتری اور جناب انس صاحب کی دائمی اوقات الصلوۃ کی روشنی میں دیوبند کے لیے تیار کردہ جنتری ان کا جب قاسمی دوامی جنتری (جو رحیمی دوامی جنتری اور دوامی اشرف التقویم اوقات نماز وغیرہ کے تقریبا مکمل طور پر موافق ہے) سے موازنہ کیا گیا تو اکثر تاریخوں میں پانچ سے زائد منٹ کا فرق ظاہر ہوا ۔

یعنی جدید جنتریوں میں صبح صادق کا وقت قدیم جنتریوں سے پانچ سات منٹ کے بعد ہے بالخصوص مئی کے اواخر جون اور جولائی میں بلکہ جناب عبدالحفیظ منیار صاحب سورت کی جنتری کے حساب سے بعض تاریخوں میں 8 اور بعض میں 9 منٹ کا فرق نکلا جبکہ یہ ساری جنتریاں 18 ڈگری صبح صادق کے حساب پر تیار کی گئی ہیں ، اس لیے جدید جنتریوں کی رعایت میں اذان فجر میں کم از کم پانچ منٹ کی احتیاط نا کافی ہے، کم از کم 10 منٹ کی احتیاط ضروری ہے بلکہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے تو اپنے زمانے میں جبکہ یہ جدید جنتریاں نہیں آئی تھیں اذان فجر میں کم از کم 10 منٹ کی احتیاط لازم قرار دیا ہے ۔

چنانچہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ دوامی اشرف التقویم اوقات نماز کے شروع میں تحریر فرماتے ہیں : نقشہ ہذا میں صبح صادق کا جو وقت درج ہے وہ اصول علم حیات جدید اور مشاہدے سے بالکل ابتدائے صبح ہے مگر احتیاطا یہ لازمی ہے کہ صبح کی اذان اس سے کم از کم 10 منٹ بعد کہی جائے، سحری 20 منٹ پہلے ختم کر دی جائے ، اس میں بد احتیاطی سے کام نہ لیا جائے، اسی طرح ختم سحر میں بھی کم از کم اٹھ دس منٹ کی احتیاط کی جائے ۔

حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے تو کم از کم 20 منٹ کی احتیاط بتائی ہے جیسا کہ اوپر گزرا لیکن چونکہ اس میں عوام کے لیے حرج ہے اور 18 ڈگری کے حساب پر تیار کردہ کسی جدید جنتری میں ان قدیم جنتریوں سے پہلے وقت سحر ختم نہیں ہوتا البتہ بعض قدیم جنتریوں میں کچھ منٹ کا فرق ہے اور گھڑی کا مکمل طور پر صحیح ہونا بھی ضروری نہیں ہے اس لیے 10 منٹ بہرحال احتیاط چاہیے اس سے زیادہ احتیاط نہ کرنے میں کچھ حرج نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسی فتوے میں آگے ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اور ختم سحر اور اذان فجر میں یہ احتیاط اس لیے بھی اہم اور ضروری ہے کہ حسابی نقطہ نظر سے تیار کی جانے والی جنتریاں محض زنی و تخمینی ہوتی ہیں قطعی و یقینی نہیں ہوتی اور روزہ نماز اور اذان سب میں احتیاط ضروری ہے احتیاط بالائے طاق رکھ کر ماہ رمضان کے روزے مشکوک کرنا یا اذان اور نماز مشکوک کرنا ہرگز صحیح نہیں ہے۔

حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب نور اللہ مرقدہ فرماتے ہیں: میں قدیم جنتری کے اوقات کو حساب کے اعتبار سے صحیح سمجھتا ہوں البتہ یہ حسابات خود یقینی نہیں ہوتے نماز روزہ کے معاملے میں احتیاط ہی کا پہلو اختیار کرنا چاہیے۔ ( احسن الفتاویٰ ٢/١٩١)

ان تمام تفصیلات سے یہ بات واضح ہو گئی کہ فجر کی اذان اور سنت میں احتیاط لازم و ضروری ہے اور اس احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ رمضان کے کیلنڈروں میں ختم سحری کا جو آخری وقت ہوتا ہے اس آخری وقت کے بعد 10 منٹ کا احتیاط کیا جائے اس کے بعد اذان پڑھی جائے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top