رمضان المبارک کی فضیلت ٢

ناقل: محمد امتیاز پلاموی ، مظاہری

رمضان المبارک میں اللہ رب العالمین کی طرف سے بندوں کی بخشش کے بے شمار اسباب عام کر دیے جاتے ہیں اور جو شخص بھی یقین کامل اور حصول ثواب کی نیت سے کوئی بھی عمل خیر انجام دیتا ہے اسے قبولیت نصیب ہوتی ہے اور وہ عمل اس کے سابقہ گناہوں کی بخشش کا سبب بن جاتا ہے ، سیدنا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيْمَانَا وَاحْتِسَاباً غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ، وَ مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيْمَانَا وَاحْتِسَاباً غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ، وَمَنْ قَامَ لَيْلَةَ الْقَدْرِ إِيْمَاناً وَاحْتِسَاباً غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ۔ (بخاری شریف ۲۵۵/۱ حدیث: ۱۸۶۳، مسلم شریف ۲۵۹/۱، مشکوة شريف (۱۷۳/۱)

جو شخص ایمان اور طلب ثواب کی نیت سے رمضان المبارک کا روزہ رکھے اس کے پچھلے گناہ بخش دئے جائیں گے، اور جو شخص ایمان اور اخلاص کے ساتھ رمضان میں عبادت کرے اس کے گذشتہ معاصی معاف کر دئے جائیں گے، اسی طرح جو شخص شب قدر میں ایمان واحتساب کے ساتھ مشغول عبادت رہے اس کے بھی پچھلے گناہ معاف کر دئے جاتے ہیں۔

اس حدیث میں دو لفظ آئے ہیں ایک ایمان دوسرے احتساب، ایمان کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عطا پر یقین کامل ہو اور احتساب کا مفہوم یہ ہے کہ روزہ ثواب کی نیت سے رکھا جائے، اور اور ہر ایسی بری بات سے بچا جائے جس سے روزہ کے ثواب میں کمی آجاتی ہے۔ (مستفاد: مرقاۃ المفاتیح بیروت ۳۸۸/۴)

رمضان المبارک میں سرکش شیاطین کو قید کردینے کی وجہ سے پورے عالم کا موصول روحانی بن جاتا ہے اور جو لوگ سال بھر کے کاموں سے دور رہتے ہیں’ وہ بھی اس ماحول سے مت۹ثر ہوکر کسی نہ کسی درجہ میں عبادت و اطاعت میں مشغول ہوجاتے ہیں ، اور فرشتوں کی طرف سے عبادت کرنے والوں کی حوالہ افزائی ہوتی ہے ، اور برائی کا ارادہ کرنے والوں کی حوالہ شکنی ہوتی ہے ۔ چنانچہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد عالی ہے :

كَانَ أَوَّلُ لَيْلَةٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ صُفْدَتِ الشَّيَاطِينُ وَمَرَدَةُ الْجِنِّ وَخُلِقَتُ أَبْوَابُ النَّارِ فَلَمْ يُفْتَحُ مِنْهَا بَابٌ وَفُتِحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ فَلَمْ يُغْلَقَ مِنْهَا بَابٌ وَيُنَادِي مُنَادٍ يَا بَاغِيَ الْخَيْرِ أَقْبِلُ وَيَا بَاغِيَ الشَّرِّ أَقْصِرُ ، وَلِلَّهِ عُتَقَاءُ مِنَ النَّارِ وَذَلِكَ كُلَّ لَيْلَةٍ (جامع ترمذی ۱۴۷/۱، سنن ابن ماجہ ١١٩. مشکوٰۃ شریف ١/١٧٣

جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیطان اور سرکش جنات قید کر دیے جاتے ہیں اور جہنم کے سب دروازے بند کر دیے جاتے ہیں ان میں سے کوئی بھی دروازہ نہیں کھولا جاتا اور جنت کی سد دروازے کھول دیے جاتے ہیں ان میں سے کوئی دروازہ بند نہیں کیا جاتا اور ایک اواز لگانے والا اواز دیتا ہے کہ اے خیر کے طلبگار اگے بڑھ اور اے برائی کا ارادہ کرنے والے پیچھے ہٹ اور اللہ کے لیے رمضان میں بہت سے لوگ جہنم سے ازاد ہوتے ہیں اور یہ معاملہ ہر رات ہوتا ہے

فرشتوں کی یہ ندا اگرچہ کانوں سے سنائی نہیں دیتی لیکن انسانی روح ضرور اس ندا کو محسوس کرتی ہے اور رمضان المبارک میں غیر رمضان کے مقابلے

میں عبادات اور اعمال خیر انجام دینا زیادہ اسان ہو جاتا ہے

رمضان المبارک کے استقبال میں پورے سال جنت کو سجایا جاتا رہتا ہے ؛ اس لیے کہ اس مہینے کے عبادت گزاروں سے جنت اباد ہوگی سو ان کے اعزاز و اکرام کے لیے تیاریاں جاری رہتی ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی منظر کشی ان الفاظ میں فرمائی ہے:

إِنَّ الْجَنَّةَ تُزَخْرَفَ لِرَمَضَانَ مِنْ رَأْسِ الْحَوْلِ إِلَى حَوْلٍ قَابِلٍ قَالَ فَإِذَا كَانَ أَوَّلُ يَوْمٍ مِنْرَمَضَانَ هَبَّتَ رِيحٌ تَحْتَ الْعَرْشِ مِنْ وَرَقِ الْجَنَّةِ عَلَى الْحُورِ الْعِيْنِ فَيَقُلْنَ يَا رَبِّ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ عِبَادِكَ أَزْوَاجاً تَقِرُّ بِهِمْ أَعْيُنُنَا وَتَقِرُّ أَعْيُنُهُمْ بِنا – (بيهقى فى شعب الایمان ۳۱۲٫۳ حدیث: ۳۶۳۳مشکوة شریف (۱۷۴/۱)

رمضان کے لئے جنت کو شروع سال سے اگلے سال تک سجایا جاتا ہے، پھر جب رمضان کا پہلا دن ہوتا ہے تو ایک مخصوص ہوا عرش خداوندی کے نیچے سے جنت کے درخت کے پتوں سے گذرتی ہوئی خوبصورت آنکھوں والی حوروں تک پہنچتی تی ہے تو وہ عرض کرتی ہیں: “اے پروردگار ! ہمارے لئے اپنے بندوں میں سے ایسے جوڑ ے منتخب فرما جن سے ہماری آنکھوں کو ٹھنڈک نصیب ہو اور ان کو ہمارے ذریعہ سے آنکھوں کا چین نصیب ہو۔واقعی کیسی روح افزا بشارت ہے جس کے تصور ہی سے دل باغ باغ ہو جاتا ہے، اور بدن کے روئیں روئیں سے رب العالمین کی شکر گزاری کے جذبات ابھر کر آتے ہیں، اور عبادت واطاعت میں عجیب کیف و سرور محسوس ہوتا ہے۔

رمضان المبارک رحمتوں کا عام سیزن ہے اس میں اللہ تعالی کی رحمت پورے جوش میں ہوتی ہے اور ذرا ذرا سے بہانے سے بندوں کی مغفرت کے فیصلے کیے جاتے ہیں اور ایک رمضان میں لاکھوں لاکھ لوگوں کی توبہ قبول ہوتی ہے اور انہیں پاک و صاف زندگی نصیب ہوتی ہے حضرت حسن بزری رحمت اللہ علیہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مرسل نقل فرماتے ہیں:

إِنَّ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ سِتْ مِائَةِ أَلْفَ عَتِيْقٍ مِنَ النَّارِ ، فَإِذَا كَانَ آخِرُ لَيْلَةٍ أَعْتَقَ اللَّهُ بِعَدَدِ مَنْ مَضى (شعب الإيمان للبيهقى ٣٠٣/٣، الترغيب والترهيب ۲۳/۲)

اللہ تعالی رمضان المبارک کی ہر رات میں چھ لاکھ لوگوں کو جہنم سے آزاد فرماتے ہیں، اور جب آخری رات ہوتی ہے تو گذشتہ آزاد شدہ لوگوں کے بقدر لوگ ( ایک ہی رات میں ) آزاد کئے جاتے ہیں۔رمضان کے روزہ کی تلافی نہیں ہو سکتی رمضان کے بابرکت ہونے کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگر کوئی شخص رمضان کا روزہ بلا شرعی عذر کے چھوڑ دے تو اگر پوری زندگی بھی اس کے بدلہ روزہ رکھتا رہے گا، تو بھی اس ایک روزہ کی تلافی نہیںہو سکتی ۔ جیسا کہ پیغمبر علیہ السلام کا ارشاد عالی ہے:

مَنْ أَفْطَرَ يَوْماً مِنْ رَمَضَانَ مِنْ غَيْرِ رُخْصَةٍ وَلَا مَرَضٌ لَمْ يُقْضَ عَنْهُ صَوْمُ الدَّهْرِ كُلِّهِوَإِنْ صَامَة (ترمذی شریف ۱۵۳/۱ – ۱۵۴ ، ابو داؤد شریف ۳۲۶/۱، مشکوة شريف ۱۷۷/۱) جو شخص رمضان المبارک کے ایک دن کا روزہ بغیر کسی عذر اور بیماری کے چھوڑ دے تو زمانہ بھر کا روزہ رکھنا بھی اس کی تلافی نہیں کر سکتا اگر چہ وہ روزہ رکھتا ر ہے۔

اس حدیث سے واضح ہوا کہ رمضان المبارک کا ایک ایک لمحہ اس قدر قیمتی اور انمول ہے کہ اس کی تلافی پوری زندگی کی عبادت سے بھی نہیں ہو سکتی ، اس کے باوجود جو شخص ماہ مبارک کے روزہ سے محروم رہے اس سےبڑا محروم اور کون ہو سکتا ہے۔رمضان کے آخری عشرہ میں عبادت کا اہتمامرمضان المبارک کے آخری عشرہ کے لمحات سب سے زیادہ قیمتی ہیں، اس میں وہ شب قدر بھی آتی ہےجس میں عبادت کرنے کا ثواب ایک ہزار مہینوں کی عبادت سے بھی زیادہ ہے، نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم عشرہ اخیرہ میں عبادت کے لئے کمر کس لیا کرتے تھے، چناں چہ ام المؤمنین سیدتنا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں:

كَانَ رَسُولُ اللَّهِ إِذَا دَخَلَ الْعَشَرُ أحيى اللَّيْلَ وَأَيْقَظَ أَهْلَهُ وَجَدٌ وَشَدَّ الْمِئزَرَ – (مسلم )شریف ۳۷۲/۱ بخاری شریف ۲۷۱/۱، المنتقى (۱۴۶)گھر والوں کو بھی جگاتے تھے، اور خوب محنت فرماتے اور کمر کس لیتے تھے۔جب رمضان کا آخری عشرہ ہوتا تو آنحضرت ﷺ راتوں رات عبادت میں مشغول رہتے تھے اور اپنےنیز فرماتی ہیں:

كَانَ رَسُولُ اللَّهِا يَجْتَهِدُ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مَالَا يَجْتَهِدُ فِي غَيْرِهَا – (مسلم شريف حدیث ١١٧٥/ شعب الایمان للبیہقی ٣/٣١٩

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اخری عشرے میں عبادت میں جس قدر محنت فرماتے تھے اتنا دوسرے ایام میں نہیں فرماتے تھے اس لیے ہم لوگوں کو بھی چاہیے کہ رمضان کے اخری دن اور راتوں کی قدر کریں اور انہیں فضول مشاغل میں ضائع نہ کریں۔

مذکورہ بالا ہدایات کے باوجود جو شخص رمضان المبارک کو لاپرواہی کے ساتھ ضائع کر دے اور اس کا حق ادا کر کے اپنے کو مستحق رحمت نہ بنائے یقینا اس سے زیادہ بد نصیب کوئی نہیں ہے جس کی تائید درج زید حدیث شریف سے ہوتی ہے:

عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ ص قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ أَحْضُرُوا الْمِنْبَرَ، فَحَضَرْنَا، فَلَمَّا ارْتَقِى دَرَجَةً قَالَ: آمِينُ، فَلَمَّا ارْتَقَى الدَّرَجَةَ الثَّانِيَةَ قَالَ: آمِينَ، فَلَمَّا ارْتَقَى الدَّرَجَةَ الثَّالِثَةَ قَالَ: آمِينُ، فَلَمَّا نَزَلَ قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ لَقَدْ سَمِعْنَا مِنْكَ الْيَوْمَ شَيْئًا مَا كُنَّا نُسْمِعُهُ؟ قَالَ: إِنَّ جِبْرَئِيلَ عَلَيْهِ السَّلَامُ عَرَضَ لِي، فَقَالَ بَعْدَ مَنْ أَدْرَكَ رَمَضَانَ فَلَمْ يُغْفَرُ لَهُ قُلْتُ: آمِينَ، فَلَمَّا رَقَيْتُ الثَّانِيَةَ قَالَ: بَعُدَ مَنْ ذُكِرْتَ عِنْدَهُ، فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْكَ، فَقُلْتُ: آمِينَ، فَلَمَّا رَقَيْتُ الثَّالِثَةَ قَالَ: بَعْدَ مَنْ أَدْرَكَ أَبَوَيْهِ الْكِبَرَ عِندَهُ أَوْ أَحَدَهُمَا فَلَمْ يُدْخِلَاهُ الْجَنَّةَ قُلْتُ: آمِينَ. في هذا الحديث الشريف، يتجلى لنا أهمية الدعاء وضرورة الاستغفار، حيث أن رسول الله ﷺ كان ينبه على وجوب اغتنام الفرص الثمينة في الحياة، خاصة في شهر رمضان المبارك. إن جبرائيل عليه السلام، بأمر الله، كان يعلن هذه الأذكار لاستنصار العباد بالصلاة والسلام على النبي، فما ألذها من تعبير عن فضيلة الصلاة عليه. هذا الحديث يعكس أيضًا واجب البار بالوالدين، حيث أن العفو عنهما وطاعتهما يأتي في مقام عالٍ جدًا، حيث يعتبر من أعظم الوسائل لدخول الجنة. لذا، يجب على كل مسلم أن يتأمل في هذه الدروس ويعمل بها، سعيًا للفلاح والتوفيق في الدنيا والآخرة. (الترغيب والترهيب ۵۲/۲۳ شعب الإيمان ۲۱۵/۲ حديث: ۱۵۷۲)

حضرت کعب بن عجرہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ نے ہمیں منبر سے قریب ہونے کا حکم دیا، یہ سب اسی تعلیم کا نتیجہ ہے۔ ہم حاضر ہو گئے، پھر جب آپ نے منبر کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھا تو فرمایا آمین، جب دوسرے درجہ پر قدم رکھا تو فرمایا آمین، جب تیسرے درجہ پر قدم رکھا تو فرمایا آمین، ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! آج ہم نے آپ سے ایسی بات سنی جو پہلے نہیں سنی تھی، تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب پہلے درجہ پر میں نے قدم رکھا اس وقت حضرت جبرئیل علیہ السلام آئے تھے اور انہوں نے یہ بددعا کی کہ وہ شخص ہلاک ہو جسے رمضان کا مہینہ ملے پھر بھی اس کی مغفرت نہ ہو، تو میں نے کہا: آمین۔ پھر جب دوسرے درجہ پر قدم رکھا تو انہوں نے کہا وہ شخص برباد ہو جس کے سامنے آپ کا ذکر مبارک کیا جائے اور وہ آپ ﷺ پر درود نہ بھیجے، تو میں نے کہا: آمین، پھر جب تیسرے درجہ پر چڑھا تو حضرت جبرئیل علیہ السلام نے کہا کہ وہ شخص بھی ہلاک ہو جو اپنی زندگی میں اپنے والدین یا ان میں سے ایک کو بڑھاپے کے زمانہ میں پائے اور وہ اسے جنت میں داخل نہ کرائیں تو میں نے کہا: آمین۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top