مولوی شعیب رضاخانی دیوبندی بنا۔ علماء دیوبند کی چند گذارشات

مولوی شعیب رضاخانی دیوبندی بنا۔ علماء دیوبند کی چند گذارشات

از قلم : ابو سعد لئیق رحمانی

علمی میدان میں پچھلے کچھ دنوں سے رضاخامیوں کی حالت بد سے بدتر ہو چکی ہے، رضاخانی کنز العلماء ڈاکٹر اشرف آصف جلالی صاحب ، جماعت اہل سنت (علماء دیوبند) کے موجودہ ترجمانوں استاذ المناظرین حضرت علامہ ساجد خان نقشبندی صاحب دامت برکاتہم اور حضرت مفتی نجیب اللہ عمر صاحب مدظلہ العالی کے چیلنج سے فرار ہیں ، رضاخانی محقق میثم عباس قادری ہماری کئی تحریروں کے جواب دینے سے قاصر ہیں ، رضاخانی علامہ جناب تیمور رانہ صاحب ہم سے اپنی تحریریں چھپاتے پھر رہے ہیں ، حتی کہ جواب الجواب کے لیے بار بار مطالبہ کرنے پر بھی نہیں دیتے ۔

مولوی عبید الرضا ارسلان صاحب فیس بک پر راقم کو انفولو کر کے فرار ہیں ، جاوید خان و غلام غوث نامی رضاخانی ہماری تحریریں دیکھتے ہی چندھیا کر آنکھ مسلنے لگتے ہیں، بقیہ رضا خانی کسی شمار و قطار میں نہیں آتے ؛ جبکہ ہماری طرف سے مسلسل دفاعی حملے جاری ہیں ، جس کا کوئی توڑ رضا خانیوں کے پاس نہیں الحمدللہ

رضا خامیوں نے اپنی اس بدحالی کے پیش نظر اور اپنی عوام کو مزید گمراہ کرنے کے لیے چند دن قبل فیس بک پر مولوی شعیب رضاخانی المعروف السنی القادری نامی ایک مسخرہ لانچ کیا ، اس مسخرے نے اول تو وہی چبلیں مارنا شروع کیں جن چبلوں کے جوابات برسوں پہلے ہمارے کمانڈر ان چیف محترم افضال کلیم صاحب اور عزیزم ریان ندوی صاحب دے چکے تھے اور ان جوابات سے بڑے بڑے رضاخانی سورمہ میدان چھوڑ کر بھاگ چکے تھے ۔

چنانچہ مولوی شعیب المعروف السنی القادری نے جب دیکھا کہ دیوبندیوں کے سامنے قدم جما کر ٹک پانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے ، تو اچھی طرح ذلیل و رسوا ہونے کے بعد ” اندھے کو اندھیرے میں بڑی دوری کی سوجھی ” کے مصداق کچھ نیا پیش کرنے کے چکر میں ہمارے جرنیل و ترجمان اہل سنت حضرت علامہ ساجد خان نقشبندی صاحب دامت برکاتہم سے واٹس ایپ پر رابطہ کیا، خدا کا کرنا ایسا کہ اس واٹس ایپی رابطہ نے شعیب کا رضا خانیت سے رابطہ ختم کرا دیا۔

اجمال کی تفصیل: شعیب رضاخانی کے کفریات

تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ حضرت علامہ نقشبندی کے سامنے مولوی شعیب نے تقیہ کر کے خود کو دیوبندی باور کرانے کی کوشش کی اور اسی چکر میں وہ سب کچھ کر گزرا جو رضا خانی مذہب میں کفر ہے ، (١) مثلاً علامہ نقشبندی صاحب کو سلام کیا (٢) آپ کے سلام کا جواب دیا (٣) حضرت علامہ کے حق میں سلامتی کی دعا کی (٤) اور اس دعا پر آمین کہا (٥) اکاابرین دیوبند کو ہمارے علماء کہہ کر مسلمان مانا (٦) اور دیوبندی عوام کو ہمارے دیوبندی طلبہ کہہ کر مسلمان مانا اور اس طرح اپنے اپ کو مکمل دیوبندی بنا لیا۔

یہ تمام امور رضا خانی مذہب میں قطعی کفر ہیں ؛ لہذا نتیجتاً رضا خامی مسخرہ شعیب اپنے ہی اعلی حضرت کی فتاوی رضویہ و حسام الحرمین وغیرہ کی رو سے کافر کلامی قرار پایا ۔

شعیب رضاخانی پر ہمارا احسان اور شعیب کی طرف سے ہٹ دھرمی و بے غیرتی کے مظاہرے

یہاں یہ بات ذہن نشی رہے کہ مولوی شعیب کی علامہ نقشبندی سے گفتگو 22 جنوری سے دو فروری تک رہی یعنی شعیب انہیں 10 دنوں میں کفریات کرتا رہا اور کافر کلامی ہوا ۔ اور یہ بھی ذہن نشیں رہے کہ شعیب کو اچھی طرح اس بات کا علم تھا کہ علامہ نقشبندی کٹر دیوبندی اور دیوبندیت کے ترجمان ہیں اور بریلویہ حسام الحرمین کی رو سے کافر کلامی ہیں، جن کے کفر و عذاب میں شک کرنا ان کو سلام کرنا یا ان کے حق میں سلامتی کی دعا کرنا وغیرہ یہ تمام امور کفر قطعی ہیں۔

اس کے باوجود شعیب نے ان امور کفریہ پر عمل کیا۔ 16 فروری کو راقم ( لئیق رحمانی) نے شعیب کو اس کے کفریات پر متوجہ کرنے کی غرض سے ایک پوسٹ لگائی ، تاکہ شعیب کوئی اطمینان بخش تاویل پیش کرے یا توبہ و رجوع کر کے اپنے مذہب رضا خانیت میں واپسی کرے ؛ مگر موصوف نے بجائے اپنے کفریات سے تائب ہونے اور ہمارا احسان ماننے کے ہٹ دھرمی وہ بے غیرتی کا مظاہرہ کیا ،

چنانچہ جیسے ہی راقم نے فیس بک پر پوسٹ لگائی چند منٹ بعد ہی شعیب نے انتہائی بھدہ کمنٹ کیا جس میں لکھا: عجب ہے تیری خطابت – عجب ہے تیرے مقالے ۔ ادھر چیختے ہیں دیوبندی ادھر پیٹتے ہیں کالے۔ جب نوٹیفیکیشن ایا سوچا شاید میرے سوالات کے جوابات ہوں گے مگر کھودا پہاڑ نکلا چوہا ۔

قارئین ! انصاف !!! شعیب رضاخانی کی بے غیرتی ملاحظہ ہو ، کہ ہم نے اسے اس کے کفر پر متوجہ کیا؛ مگر موصوف اسے کھودا پہاڑ نکلا چوہا سے تعبیر کر رہا ہے یعنی موصوف کے نزدیک اس کے کفریات ” چوہا ” ہیں ۔ اسی کمینٹ میں موصوف نے ہمیں لعنتی بھی کہا ، پھر 16 فروری سے 6 مارچ تک مسلسل موصوف کو فیس بک پر اس کی پوسٹوں کے کمنٹ سیکشن میں اس کے کفریات کی طرف متوجہ کرتے رہے ؛ مگر موصوف کو غیرت آئی ، نہ توبہ و رجوع کی توفیق ہوئی ۔

شعیب رضاخانی کی گالیاں

بلکہ ہر بار ہمیں جواب میں ایسی ایسی گالیاں سننے کو ملیں کہ سن کر شیطان بھی کانوں پر ہاتھ رکھ لے ۔ بطور نمونہ دو چار گالیاں ملاحظہ ہوں “(١) خائن کوڈو (٢) ریان خناس (٣)سب سے بڑے رنڈی باز (٤) بے شرم (٥) ڈھیٹ (٦) طواغیت اربعہ خذلھم اللہ تعالی کے خصیہ معاذ اللہ! غور فرمائیے یہ ہمارے حق میں اس رضا خانی کی گندی زبان ہے ، جس پر ہم احسان کر رہے تھے ، موصوف کی زبان دیکھ کر ایسا لگتا ہے بریلی شریف کے محلہ سوداگران کا گٹر ابل رہا ہے۔

شعیب رضاخانی کے رجوع نامہ کا پوسٹ مارٹم

نمبر (١) موصوف لکھتا ہے : الحمدللہ میرے نزدیک طواغیت اربعہ خذلھم اللہ تعالی کافر کلامی ہیں ، جو ان کے کفریات جاننے کے باوجود درست جانے ، تاویلات کرے ؛ حتی کہ ان کے کفر میں ذرہ برابر بھی شک کرے اس پر من شك في كفره و عذابه فقد كفر کا حکم جاری ہوگا۔ اس چند سطری عبارت میں موصوف نے اپنے کئی بریلوی اکابرین کی تکفیر کا ڈالی صرف ایک مثال پیش کرتا ہوں :

علماء دیوبند کا مسلمان ہونا بریلوی گھر سے

مولانا عبدالرؤف خان جگنپوری رحمہ اللہ نے ایک استفتاء لکھ کر ملک بھر کے مدارس و دارالافتاؤں میں بھیجا ، جس میں پہلا اور بنیادی سوال یہ تھا کہ کیا واقعی بقول حشمت علی رضا خانی کے حضرات اکابر علماء دیوبند کافر ہیں؟ ( براۃ الابرار صفحہ 92

یہ استفتا جامعہ عباسیہ بہاولپور بھی بھیجا گیا ، تو وہاں کے شیخ الجامعہ حضرت پیر مہر علی شاہ مرحوم کے خلیفہ مولانا غلام محمد گھوٹوی صاحب نے اس سوال کے جواب میں تحریر فرمایا : کہ اکابر علماء دین ہرگز کافر نہیں بلکہ بڑے اولیاء اللہ ہیں ۔ برات الابرار صفحہ 98

مولانا غلام محمد گھوٹوی صاحب علمائے دیوبند رحمہم اللہ تعالٰیٰ کو مسلمان بلکہ اولیاء اللہ قرار دے رہے ہیں ؛ جبکہ شعیب ایسے شخص کو کافر گردانتا ہے ؛ لہذا شعیب کے فتوے سے گھوٹوی صاحب کافر ، اور گھوٹوی صاحب کو خلافت عطا کر کے پیر مہر علی شاہ کافر معاذ اللہ ۔ استغفر اللہ۔ واضح رہے کہ مولانا غلام محمد گھوٹوی صاحب کو رضا خانی علامہ عبدالحکیم شرف قادری نے تذکرہ اکابر اہل سنت میں اپنے اکابر میں شمار کیا ہے ۔

اگر شعیب رضا خانی اس فتوے سے انکاری ہو یا جعلی قرار دینے کی کوشش کرے تو اس کی خدمت میں عرض ہے ، کہ برأت الابرار نامی کتاب جس میں مولانا غلام گھوٹوی کا یہ فتوی شائع ہوا پہلی مرتبہ 1932 عیسوی میں شائع ہوئی اور دوسری مرتبہ 1934 میں ، جبکہ مولانا گھوٹوی کا انتقال 1948 عیسوی میں ہوا۔ یعنی براءت الابرار گھوٹوی صاحب کی حیات میں دو مرتبہ شائع ہوئی ، مگر گھوٹوی صاحب کی طرف سے اس فتوے کی کوئی تردید نہیں کی گئی اور یہ رضا خانیوں کا مشہور اصول ہے کہ تردید نہ کرنا دلیل تائیدست ۔

پس اگر شعیب یا کوئی بھی رضا خانی فتوی مذکورہ مولانا گھوٹوی کا ہونے سے انکاری ہو تو اسے چاہیے کہ اپنے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تردید میں گھوٹوی صاحب کی تحریری شہادت پیش کرے ۔

نمبر 2: موصوف لکھتا ہے : گزشتہ چند دن قبل بندہ ناچیز کا ساجد خائن دیوبندی سے بذریعہ واٹس ایپ گفت و شنید کا سلسلہ رہا، جس میں ناچیز نے توریۃً سلام کیا اور بعض اوقات جواب بھی دیا ، حتی کہ ایک بار سلامتی کی دعا بھی کی ۔ یہاں موصوف نے بہت کچھ چھپا کر دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے ؛ مگر یاد رہے یہ ہمیں نہیں خود اپنے آپ کو اور اللہ تعالی کو دھوکہ دے رہا ہے ، فراڈ ملاحظہ ہو : کہ یہاں صرف سلام و دعا کا ذکر کر رہا ہے جبکہ معاملہ صرف اتنا ہی نہیں ، موصوف نے اصل کفریات مثلأ اکابرین دیوبند کو مسلمان ماننا ، دیوبندیوں کو اپنا کہنا، اور اپنے آپ کو دیوبندی ظاہر کرنا وغیرہ یہ سب گنوایا ہی نہیں، علاوہ ازیں : موصوف نے کہا کہ” توریۃً سلام کیا” لگتا ہے کہ موصوف کو توریہ کا معنیٰ مفہوم اور اس کے جواز و عدم جواز کی صورتوں کا علم نہیں ہے ۔ توریہ کسے کہتے ہیں اور اس کے جواز کی کیا صورت ہے اس بحث میں پڑے بغیر ہم موصوف سے صرف اتنا سوال کرنا چاہتے ہیں کہ کسی دیوبندی کو سلام کرنا ، سلامتی کی دعا دینا اور اس کے لیے تعظیمی الفاظ قبلہ کعبہ وغیرہ کرنا توریۃً جائز ہے ؟ ایسا کر سکتے ہیں ، یہ بات اپنے اعلی حضرت یا اپنے صف اول کے اکابرین سے ثابت کر کے دکھائیے۔

نمبر 3: موصوف لکھتا ہے : کہ بہرحال اس فتنہ دیابنہ کے روک تھام کے لیے اور رضاء الہی کے لیے میں باری تعالی کی بارگاہ میں طواغیت اربعہ کے کفریات کا برسر عام دفاع کرنے والے ساجد خان کو سلام کرنے ، اور سلامتی کی دعا کرنے، اور دیگر جو تعظیمی کلمات بولے سبھی سے سچے دل سے توبہ و رجوع کرتا ہوں۔

اولاً : ملاحظہ فرمائیں ! کہ موصوف کہتا ہے کہ فتنہ دیابنہ کی روک تھام کے لیے توبہ کر رہا ہوں یعنی اگر ہم دیوبندی نہ ہوتے تو یہ کمبخت کافر ہی رہتا، کبھی توبہ نہ کرتا ، نیز اگر توبہ رضائے الہی کے لیے ہی کر رہا تھا تو 2 فروری کو کیوں نہ کیا؟ 16 فروری کو جب ہم نے متوجہ کیا تب کیوں نہ کیا ؟ پھر اتنے دنوں تک کافر رہا اور اپنی جورو سے زنا خالص کرتا رہا اس سے کب توبہ و رجوع کرے گا ؟ صرف توبہ و رجوع کافی نہیں ، تجدید نکاح و ایمان ، تجدید بیعت وغیرہ بھی کرنا ہے اور کس طرح کرنا ہے اس کی تفصیل محترم افضال کلیم بھائی بتا چکے ہیں ویسے شعیب کی آسانی کے لیے راقم اپنی اس تحریر میں محترم افضال بھائی کی تحریر بھی شامل کر دے گا۔

ثانیاً: موصوف کی یہ توبہ فاضل بریلوی اور مولانا حشمت علی کے اصولوں پر مبہم و ناکافی ہے ، ہم نے موصوف کے تقریباً 14 کفریات گنوائے ہیں ، ہر ایک اپنی جگہ مستقل کفر ہے ؛ لہذا موصوف کو چاہیے کہ پورے 14 کفریات کو ایک ایک کر کے بیان کریے اور ان سب سے توبہ کرے، اور یاد رہے صرف کفریہ سے ہی توبہ نہیں، حرام کاریوں سے بھی توبہ کرنا ہے۔

نمبر 4: موصوف نے اپنے رجوع نامہ میں ایک بات یہ بھی کی ہے کہ ریان افضال اور لئیق نے میری کسی تحریر کا جواب اپنے اصولوں کے مطابق نہیں دیا اور اگر ریان افضال یہ کہیں کہ جواب دیا ہے تو حلف اور کلما طلاق کی قسم اٹھائیں۔ الجواب: ہماری طرف سے موصوف کی ہر تحریر کا جواب دیا گیا ہے ؛ لیکن موصوف دعویدار ہیں کہ جواب نہیں دیا گیا تو اب ہم موصوف کے الفاظ اسی پر لوٹاتے ہوئے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ موصوف حلف و کلما طلاق کی قسم اٹھائے کہ ریان افضال اور لئیق نے جواب نہیں دیا ۔ اب موصوف کے پاس صرف دو راستے ہیں ، نمبر (١) یا تو قسم اٹھا کر اپنا سچا ہونا ثابت کرے ۔ نمبر (٢) یا اپنی بات واپس لے کر اقرار کرے کہ ہاں جواب ملا ہے ۔ اگر موصوف نے تیسرا راستہ تلاش کرنے کے چکر میں کوئی بہانہ یا ڈرامے بازی کی تو یہی موصوف کے کذاب اعظم ہونے کی دلیل ہوگی اور اسی سے ہمارا سچا ہونا ثابت ہو جائے گا۔

رجوع نامہ پر افضال بھائی کے ریمارکس اور مطالبات

سنی القادری شعیب رضاخانی اپنے ہی اقرار سے کافر و مرتد! الٹنّی القادری نے دیوبندی بن کے علامہ ساجد خان نقشبندی سے گفتگو کی اور سلام بھی کیا ، سلامتی کی دعا بھی کی، انہیں مسلمان بھی مانا، اس پہ گرفت ہوئی تو اس نے اقرار کرتے ہوئے اپنا ایک رجوع نامہ لگا دیا، اس کے کمنٹس اور رجوع نامہ کے اسکین منسلک ہیں (فیس بک پر ) ۔ اب ہماری گرفت دیکھیے یہ تڑپے گا ، گالیاں نکالے گا، مگر نکل نہیں سکے گا۔

اختر رضا خان ( بریلوی تاج الشریعہ) لکھتا ہے: کہ یہ کوئی فقہی مسئلہ تھا جو محض رجوع سے کام چل گیا؟ رجوع پلس توبہ نامہ پیش کرو! لہذا الٹنّی پہ اختر رضا کے اصول سے توبہ لازم ہے، اب ٹنی سوچ رہا ہوگا کہ میں توبہ کے الفاظ لکھ دیتا ہوں کیا جاتا ہے؟ تو نہ میرے بھائی نہ! اتنے سستے میں تم چھوٹنے والے نہیں، تمہارے قارونی امام نے توبہ کی کچھ شرائط پیش کی ہیں ، ان پہ عمل ہونا پھر توبہ قابل قبول ہوگی۔

توبہ قابل قبول ہونے کے شرائط

احمد رضا خان توبہ کی شرائط لکھتا ہے: (١) اخباروں میں بلا تاویل اپنا اعتراف جرم کر کے اس کاروائی کی شناعت بیان کریں (٢) اشتہار چھپوا کے لگائیں (٣) بچے بچے کے کان تک اس توبہ کی اطلاع پہنچے (٤) مٹی پہ اپنی ناک رگڑے (٥) سر میں خاک ڈالے (٦)سر برہنہ اور چشم گریاں سے توبہ کرے ۔

ہمارا مطالبہ

الٹنّی توبہ کی شرائط پوری کرتے ہوئے ویڈیو بنائیں جس میں یہ ننگے سر روتا ہوا ، اپنی ناک مٹی پہ رگڑ رہا ہو ، اور سر پہ خاک ڈال رہا ہو ، اس کے بعد ویڈیو میں وہ اخبارات اور اشتہار دکھائے جس میں اس کی توبہ کا ذکر ہو۔ الٹنی سمجھ رہا ہوگا کہ اب ذلت ختم ہو گئی ۔ نہیں! ابھی مزید ذلیل ہونا باقی ہے ۔ مشہور گالی باز حشمت علی توبہ کی قبولیت کی مزید پانچ شرائط لکھتا ہے :

نمبر (١) تجدید ایمان (٢) علی الاعلان توبہ نمبر (٣) تجدید نکاح نمبر (٤) تجدید حج نمبر (٥) تجدید بیعت ۔ اب ایک اور ویڈیو بنانی ہے ،جس میں الٹنّی یعنی شعیب کلمہ پڑھ رہا ہو ، علی الاعلان توبہ کر رہا ہو، اپنی سابقہ بیوی سے ایجاب و قبول کر رہا ہو ، اس دوران جو سابقہ بیوی سے زنا کیا ہو اس کی معافی مانگ رہا ہو ۔ سنا ہے اس کا پیر اشرف جلالی حیضی بچہ ہے ۔ تو جناب اس حیضی بچے سے بیعت بھی دوبارہ کرنی ہے ، ہمیں شدت سے ہر دو ویڈیوز کا انتظار ہے، تب تک ہم اسے اس کے اپنے مسلکی اصول سے مرتد ہی کہیں گے : راقم محمد افضال کلیم۔

پھر بھی مکمل اعتماد نہیں کیا جائے گا

افضال کلیم بھائی نے رضا خانی کتب کی روشنی میں جو مطالبات کیے، اول تو شعیب کو ہر حال میں ان پر عمل کرنا ہے، پھر اگر عمل کر کے ویڈیو وغیرہ بنا کر اپلوڈ بھی کر دے تب بھی کم از کم تین چار سال تک شعیب مشکوک رہے گا، اس پر مکمل اعتماد نہیں کیا جائے گا ، جیسا کہ رضاخانی مفتی جلال الدین امجدی لکھتے ہیں :

اگر لڑکی کے سنی ہونے کے ساتھ اس کے گھر والے بھی سنی صحیح العقیدہ ہو جائیں تو دو تین سال تک دیکھا جائے کہ وہ سنیت پر قائم ہے یا نہیں ، جب خوب اطمینان ہو جائے کہ وہ سنیت پر قائم ہیں تب ان سے رشتہ ہو سکتا ہے، اس سے پہلے ہرگز اجازت نہیں ، جیسے کہ شراب پینے والا اگر توبہ کر لے تو فوراً اسے امام نہیں بنایا جائے گا ؛ بلکہ اطمینان کے لیے کچھ روز اسے دیکھا جائے گا۔ فتاوی عالمگیری سے فتاوی رضویہ جلد سوم صفحہ 213 میں ہے : الفاسق اذا تاب لا تقبل الشهادته ما لم يمض عليه زمان يظهر عليه اثر التوبه. یعنی فاسق توبہ کرے تب بھی اس کی گواہی نہیں قبول کی جائے گی ، جب تک کہ اتنا وقت نہ گزر جائے کہ اس پر توبہ کا اثر ظاہر ہو ۔ فتاوی فقیہ ملت جلد اول دوم صفحہ 442

جلال الدین امجدی مزید لکھتے ہیں کہ: اگر وہ دیوبندیت سے توبہ کر لے اور دیوبندی پیشواؤں کو کافر مرتد کہے اور سنی صحیح العقیدہ ہونے کا اقرار کرے تو اس کے بعد ایک زمانہ دراستہ اسے چھوڑ دیں اور اس کے احوال پر گہری نظر رکھیں جب پورا یقین ہو جائے کہ واقعی وہ سن سے وغیرہ کرتا ہے اور دیوبندیوں سے بالکل مل جل نہیں رکھتا اور سب گمراہ فرقوں سے نفرت کرتا ہے تب اس کا نکاح سنی لڑکی سے جائز ہوگا فتاوی فقیہ ملت جلد اول دم صفحہ 448

پس ان حوالوں کی روشنی میں ہم کم از کم تین چار سال تک شعیب کے احوال پر نظر رکھیں گے اور اسے بحیثیت رضاخانیت کا مناظر اور ترجمان گفتگو کے قابل نہیں سمجھا جائے گا 😜 اگر اس سے گفتگو ہوگی بھی تو پہلے اس سے اس کی حرام کاریوں ، کفریات وغیرہ پر اور جب تک یہ اپنی سابقہ بی بی سے تجدید نکاح کی ویڈیو بنا کر ہمیں نہیں دکھاتا ہم اسے زانی کہیں گے۔ یاد رہے شعیب نے جان بوجھ کر اپنے مذہب سے غداری کی ، دیوبندیوں میں گھس کر دیوبندی بنا، اللہ اور رسول کے احکامات کی خلاف ورزی کی، اپنے امام و مجدد کے فتاوی کو گٹر برد کیا ، اب ایسے شخص پر ہم کسی صورت اعتماد نہیں کر سکتے؛ لہذا اس کا یہ کہنا کہ تجدید نکاح کر لیا کافی نہیں, ویڈیو یا کوئی اور ثبوت بھی پیش کرنا ہوگا ، بصورت دیگر ہم اسے زانی حرام کار کہیں گے۔

شعیب رضاخامی کا ایک اور مغالطہ اور اس کا منہ توڑ جواب

جب ہمیں شعیب کے ان کفریات پر اطلاع ہوئی تبہی سے ہم نے شعیب کو بار بار متوجہ کرنا شروع کر دیا تھا اور ساتھ ہی یہ مطالبہ بھی رکھنا شروع کر دیا تھا کہ شعیب چونکہ کافر ہو چکا ہے ؛ لہذا پہلے شعیب کے کفر و ایمان پر گفتگو ہوگی، ہمارے اس مطالبے سے شعیب بری طرح بوکھلایا اور گھبراہٹ میں بغیر کچھ سوچے سمجھے اس مطالبے کا جواب دیا ، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ : دیوبندی چونکہ خود کافر ہیں ؛ لہذا ان کو میرے ایمان پر بات کرنے کا حق نہیں ۔ الجواب ! او شریمان!!! اول تو آپ دیوبندیوں کو کافر ثابت کر نہیں سکتے، ماقبل میں غلام محمد گھوٹوی صاحب کی شہادت ہم پیش کر چکے ہیں کہ دیوبندی کافر نہیں، مسلمان ہیں۔ ثانیاً : مسٹر شعیب کو ہم نے اپنے گھر سے کافر نہیں کہا اور نہیں وہ امور جن کے سبب شعیب کافر ہوا ہمارے نزدیک کفریہ ہیں ۔

سوچنے کی بات ہے کہ بھلا حضرت علامہ ساجد نقشبندی کو سلام کرنا، ان کے حق میں سلامتی کی دعا کرنا ، اور علمائے دیوبند کو مسلمان ماننا، دیوبندیوں کو اپنا کہنا، ہمارے نزدیک کیوں کر کفر ہوگا؟ یہ امور تو مذہب رضا خانیت میں کفر ہیں۔ اور چونکہ شعیب اپنے آپ کو رضا خانی بتاتا ہے، بطور رضا خانی مناجر رضا خانیت کا دفاع کرتا ہے ، احمد رضا خان فاضل بریلوی کی تعلیمات و تشریحات پر اعتماد و یقین رکھتا ہے، تو اس کے مذہب کے مطابق وہ کافر ہوا ہے، یعنی رضا خانیت سے خارج ہوا ہے۔ اب ظاہر بات ہے کہ شعیب جب اپنے ہی مذہب جس کو اسلام کہتا ہے یعنی رضا خانیت کے مطابق کافر ہے اور وہ اگر ہم سے دیوبندیت پر گفتگو کرنا چاہتا ہے تو پہلے اس کا ایمان یعنی 100 فیصد رضا خانی ہونا تو ثابت ہونا چاہیے ؟ ورنہ کیا پتہ جناب اندر سے قادیانی رافضی وہابی ہوں اور رضا خانی بن کر دیوبندیت پر حملہ کرتا ہو تاکہ دیوبندی مناظرین جواب میں رضا خانیت پر حملہ کریں اور یہ رافضی وہابی شعیب تماشائی بن کر مزے کرے گا ؛ لہذا ضروری ہے کہ پہلے اس کا کفر و ایمان یعنی اس کا 100 فیصد رضا خانی ہونا زیر بحث ہو۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top