قرآن میں سائنس اور ٹیکنالوجی کیوں نہیں ؟
ناقل : محمد امتیاز پلاموی ، مظاہری
افادات: شیخ الاسلام حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ العالی

آج کل بہت سے لوگ ، خاص کر جدید تعلیم یافتہ ، اسکولوں اور کالجوں میں پڑھنے پڑھانے والے نوجوان اسٹوڈنٹس ، یا پروفیسر وغیرہ کا اعتراض ہوتا ہے کہ قرآن کریم میں سائنس اور ٹیکنالوجی کیوں نہیں ہے ؟ اس کا جواب معلوم کرنے سے پہلے نزول قرآن کریم کا مقصد سمجھنا ضروری ہے، اسی سے اس سوال کا جواب مل جائے گا۔
نزول قرآن کریم کا مقصد
نزول قرآن کریم کا مقصد کیا ہے ؟ اس کا جواب قرآن کریم نے متعدد مقامات پر خود ہی دیا ہے ، مثال کے طور پر تین آیات قرآنی ذکر کی جا رہی ہیں جن سے نزول قرآن کریم کا مقصد واضح ہوجائے گا۔ انشاءاللہ
نمبر (١) :
قَدْ جَاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُبِينٌ[15] يَهْدِي بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ سُبُلَ السَّلَامِ وَيُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِهِ وَيَهْدِيهِمْ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ ( سورۃ المائدہ 16)
ترجمہ: تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک روشن چیز ائی ہے، اور کتاب واضح ہے ، کہ اس کے ذریعے اللہ تعالی ایسے لوگوں کو جو رضائے حق کے طالب ہوں ، سلامتی کی راہیں بتلاتے ہیں اور ان کو اپنی توفیق سے تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف لے آتے ہیں اور ان کو صراط مستقیم کی ہدایت کرتے ہیں۔
نمبر (٢):
يَا أَهْلَ الْكِتَابِ قَدْ جَاءَكُمْ رَسُولُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ عَلَى فَتْرَةٍ مِنَ الرُّسُلِ أَنْ تَقُولُوا مَا جَاءَنَا مِنْ بَشِيرٍ وَلَا نَذِيرٍ فَقَدْ جَاءَكُمْ بَشِيرٌ وَنَذِيرٌ (مائدہ 19)۔
ترجمہ: اے اہل کتاب تمہارے پاس یہ ہمارے رسول آ پہنچے ہیں ، جو تم کو صاف صاف بتلاتے ہیں ، ایسے وقت میں کہ رسولوں کا سلسلہ ( عرصہ سے ) موقوف تھا ؛ تاکہ تم یوں نہ کہنے لگو کہ ہمارے پاس کوئی خوشخبری دینے والا نہ آیا ،نہ ہی ڈرانے والا ، تو اب تمہارے پاس خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا آگیا ہے۔
نمبر (٣):
وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتَابِ وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِ ۖ فَاحْكُم بَيْنَهُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ عَمَّا جَاءَكَ مِنَ الْحَقِّ ۚ لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا ۚ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَٰكِن لِّيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ ۖ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ ۚ إِلَى اللَّهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ ( مائدہ 48)
ترجمہ : ہم نے یہ کتاب آپ کے پاس بھیجی ہے ، جو خود بھی صدق کے ساتھ موصوف ہے اور اس سے پہلے جو آسمانی کتابیں ہیں ان کو بھی تصدیق کرتی ہے ، اور ان کتابوں کی محافظ ہے ، تو ان کے باہمی معاملات میں اس بھیجی ہوئی کتاب کے موافق فیصلہ فرمایا کیجئے اور یہ جو سچی کتاب آپ کو ملی ہے اس سے دور ہو کر ان کی خواہشوں پر عمل درآمد نہ کیجئے ۔
تم میں سے ہر ایک کے لیے ہم نے خاص شریعت اور خاص طریقہ تجویز کیا تھا ، اور اللہ تعالی کو منظور ہوتا تو سب کو ایک ہی امت میں کر دیتے ؛ لیکن ایسا نہیں کیا ، تاکہ جو دین تم کو دیا ہے اس میں تم سب کا امتحان فرما دیں ، تو نیکیوں کی طرف دوڑو تم سب کو خدا ہی کے پاس جانا ہے، پھر وہ تم سب کو جتلا دے گا جس میں تم اختلاف کیا کرتے تھے۔
نزول قرآن کریم کا مقصد واضح ہوگیا
یہ محض چند مثالیں ہیں ، اور اگر صرف انہیں پر غور کر لیا جائے تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ نزول قران کریم کا مقصد اصلی انسان کو آخرت کی تیاری پر آمادہ کرنا اور اللہ تعالی کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کی تعلیم و ترغیب ہے ، اور جتنی باتیں اس میں تاریخی واقعات یا کائنات و آفاق سے متعلق آئی ہیں وہ سب اسی بنیادی موضوع کی تائید و تقویت کے لیے آئی ہیں۔ ۔ ( علوم القرآن صفحہ ٣٨٦-٣٩٢ بحوالہ اسلام اور دور حاضر کے شبہات و مغالطے صفحہ ٦٨-٦٩))
قرآن کریم میں سائنس اور ٹیکنالوجی کیوں نہیں ؟
اوپر کی تفصیل سے معلوم ہوگیا کہ نزول قرآن کریم کا مقصد کیا ہے؟ لہذا اگر اس میں سائنس کا کوئی مشہور مسئلہ موجود نہ ہو تو یہ اعتراض نہیں کیا جاسکتاہے کہ قرآن کریم میں سائنس اور ٹیکنالوجی کیوں نہیں ہے ؟ کیونکہ یہ اس کا موضوع ہی نہیں ، اسی طرح ان لوگوں کی غلط فہمی بھی دور ہو جاتی ہے ، جو ان اعتراضات سے متاثر ہو کر اس فکر میں رہتے ہیں کہ قرآن کریم سے سائنس وغیرہ کا کوئی نہ کوئی مسئلہ کسی نہ کسی طرح ثابت کیا جائے ۔
کیونکہ اس کوشش کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص قانون کی کسی کتاب پر یہ اعتراض کرنے لگے کہ اس میں ایٹم بم بنانے کا طریقہ کیوں مذکور نہیں ؟ تو اس کے جواب میں کوئی دوسرا شخص قانونی الفاظ کو توڑ مڑ کر اس سے ایٹم کی تھیوری نکالنے کی کوشش کرنے لگے ، ظاہر ہے کہ یہ اس اعتراض کا جواب نہیں ؛ بلکہ ایک مذاق ہوگا ۔
اسی طرح جو شخص قران کریم میں سائنس اور انجینئرنگ کے مسائل نہ ہونے پر اعتراض کرے اس کا صحیح جواب یہ نہیں ہے کہ قرانی الفاظ کو توڑ مڑ کر اس سے سائنس کے مسائل زبردستی نکالے جائیں ؛ بلکہ اس کا صحیح جواب یہ ہے کہ قران کریم نہ سائنس یا انجینیئرنگ کی کتاب ہے ، اور نہ مادی ترقی حاصل کرنے کا طریقہ اس کا موضوع ہیں ۔ ( اسلام اور دور حاضر کے شبہات و مغالطے صفحہ ٦٨-٦٩)
قرآن میں ایٹم بم بنانے کا فارمولہ کیوں نہیں ؟
سوال:
اکثر پڑھے لکھے طبقے کے ذہنوں میں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ : آج سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے، ساری دنیا سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کر رہی ہے ؛ لیکن ہمارے قرآن میں ایٹم بم بنانے کا فارمولہ کیوں نہیں ہے؟ قرآن میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے بارے میں کوئی فارمولا کیوں نہیں ہے؟ کس طرح ہم ایٹم بم بنائیں ؟ کس طرح ہائیڈروجن بم بنائیں ؟
اس کا کوئی فارمولا نہ تو قران کریم میں ملتا ہے اور نہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ملتا ہے ، اس کی وجہ سے بعض لوگ احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں کہ صاحب دنیا چاند اور مریخ پر پہنچ رہی ہے ، اور ہمارا قرآن ہمیں اس بارے میں کچھ نہیں بتاتا کہ چاند پر کیسے پہنچے ؟
جواب:
اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن میں ایٹم بم بنانے کا فارمولہ اس لیے نہیں ہے ، کہ وہ دائرہ عقل کا ہے، آئیٹم بم بنانا تجربہ کا دائرہ ہے، وہ ذاتی محنت اور کوشش کا دائرہ ہے ، اللہ تعالی نے اس کو انسان کی ذاتی تجربے، عقل اور کوشش پر چھوڑا ہے کہ جو شخص جتنی کوشش کرے گا اور عقل کو استعمال کرے گا ، تجربے کو استعمال کرے گا، اس میں آگے بڑھتا چلا جائے گا ۔
قرآن آیا ہی اس جگہ پر ہے جہاں عقل کا دائرہ ختم ہو رہا تھا، عقل اس کا پوری طرح ادراک نہیں کر سکتی، ان چیزوں کا ہمیں قرآن کریم نے سبق پڑھایا ہے ، ان چیزوں کے بارے میں ہمیں معلومات فراہم کی ہیں ؛ لہذا اسلامائزیشن آف لاز کا سارا فلسفہ یہ ہے : کہ ہم اپنی پوری زندگی کو اس کے تابع بنائیں، اس لیے یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ قرآن میں ایٹم بم بنانے کا فارمولہ کیوں نہیں؟ ۔ ( اصلاحی خطبات جلد ١ صفحہ ٣٨_ اسلام اور دور حاضر کے شبہات و مغالطے صفحہ ٧١-٧٢)
Pingback: مولوی شعیب رضاخانی دیوبندی بنا۔ علماء دیوبند کی چند گذارشات
qgKwLzt PPF VsABu FrxrYKM iFFCfAi