معنیٰ مطلب سمجھے بغیر حفظ قرآن اور تلاوت کا کیا فائدہ؟
محمد امتیاز پلاموی ، مظاہری
افادات : شیخ الاسلام حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب مدظلہ العالی
آج کل لوگوں میں یہ پروپگنڈا کیا گیا ہے ، کہ معنیٰ مطلب سمجھے بغیر حفظ قرآن کریم کرنے اور طوطا مینہ کی طرح رٹنے سے کیا فائدہ ؟ جب تک کہ انسان اس کے معنی اور مطلب نہ سمجھے، اور جب تک اس کے مفہوم کا اس کو ادراک نہ ہو تلاوت کا کیا فائدہ؟ ، یہ تو ایک نسخہ ہدایت ہے ، اس کو سمجھ کر انسان پڑھے اور اس پر عمل کرے تو فائدہ حاصل ہوگا۔
اسی طرح بچوں کو قران کریم رٹانے سے کیا حاصل ہے؟ العیاذ باللہ یاد رکھیے !! یہ شیطان کی طرف سے بہت بڑا دھوکہ اور فریب ہے ، جو مسلمانوں کے اندر پھیلایا جا رہا ہے، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو جن مقاصد کے لیے بھیجا گیا قران کریم نے ان کو متعدد مقامات پر بیان فرمایا ، ان مقاصد میں دو چیزوں کو علیحدہ علیحدہ ذکر فرمایا ، ایک طرف فرمایا : يَتۡلُوۡا عَلَيۡهِمۡ اٰيٰتِهٖ . اور دوسری طرف فرمایا: وَيُعَلِّمُهُمُ الۡكِتٰبَ وَالۡحِكۡمَةَ ۚ (آل عمران ١٦٤
یعنی: آپ ﷺ اس لیے تشریف لائے تاکہ کتاب اللہ کی آیات لوگوں کے سامنے تلاوت کریں ؛ لہذا تلاوت کرنا ایک مستقل مقصد ہے ، اور ایک مستقل نیکی اور اجر کا کام ہے ، چاہے سمجھ کر تلاوت کرے یا بے سمجھے تلاوت کرے ، اور یہ تلاوت حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے بعثت کے مقاصد میں سے ایک مقصد ہے جس کو سب سے پہلے ذکر فرمایا:يَتۡلُوۡا عَلَيۡهِمۡ اٰيٰتِهٖ ۔
علمِ تجوید اور علمِ قرأت
اور قران کریم کی تلاوت ایسی بے وقعت چیز نہیں ، کہ جس طرح چاہا تلاوت کر لیا ؛ بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام کو باقاعدہ تلاوت کرنے کا طریقہ سکھایا اور اس کی تعلیم دی ، کہ کس لفظ کو کس طرح ادا کرنا ہے، کس طرح زبان سے نکالنا ہے ، اس کی بنیاد پر دو مستقل علوم وجود میں آئے، جن کی نظیر دنیا کی کسی قوم میں نہیں ہے: ایک علم تجوید دوسرا علم قرات۔
قرآن کا مطلب سمجھے بغیر پڑھنا پہلی سیڑھی ہے
بہرحال تلاوت بذات خود ایک مقصد ہے اور یہ کہنا کہ بغیر سمجھے صرف الفاظ کو پڑھنے سے کیا فائدہ؟ یہ شیطان کا دھوکہ ہے ، یاد رکھیے جب تک کسی شخص کو قران کریم سمجھے بغیر پڑھنا نہ آیا تو وہ شخص دوسری منزل پر قدم رکھ ہی نہیں سکتا، قران کریم سمجھے بغیر پڑھنا پہلی سیڑھی ہے، اس سیڑھی کو پار کرنے کے بعد دوسری سیڑھی کا نمبر آتا ہے، اگر کسی شخص کو پہلی سیڑھی پار کرنے کی توفیق نہ ہوئی تو وہ دوسری سیڑھی تک کیسے پہنچے گا ؟ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا : کہ یہ قرآن کریم ایسا نسخہ شفاء ہے کہ جو شخص اس کو سمجھ کر اس پر عمل کرے اس کے لیے تو باعث شفاء ہے ہی لیکن اگر کوئی شخص محض اس کی تلاوت کیا کرے بغیر سمجھے بھی، تو اس پر بھی اللہ تبارک و تعالی نے اتنی نیکیاں لکھی ہیں کہ ایک ” الم” کے پڑھنے پر تیس (٣٠) نیکیوں کا اضافہ ہوتا ہے۔. ۔ اصلاحی خطبات جلد ١٠/ ٢٤٩ اسلام اور دور حاضر کے شبہات و مغالطے صفحہ ٥١-٥٢
کیا صرف قرآن ہمارے لیے کافی ہے؟
ایک بڑی غلط فہمی کا ازالہ
یہاں ایک بہت بڑی غلط فہمی کا ازالہ فرما دیا جو آج بھی بہت سے لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو رہا ہے، وہ یہ کہ اللہ تعالی کی کتاب قرآن مجید ہمارے لیے کافی ہے، ہمیں کسی انسان کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں، ہمارے پاس کتاب قرآن مجید موجود ہے، اس کے ترجمے چھپے ہوئے موجود ہیں، ترجموں کے ذریعے قران کریم پڑھیں گے اور اس کے ذریعے جو مطلب سمجھ میں آئے گا اس پر عمل کریں گے، ہمیں اس بات کی ضرورت نہیں ہے کہ نیک لوگ کیا کر رہے ہیں اور کس طرح عمل کی تلقین کر رہے ہیں۔ قرآن کریم فرماتا ہے :کہ یہ بات نہیں ہے اگرچہ پورا قرآن ہی صراط مستقیم ہے؛ لیکن اس صراط مستقیم کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ان لوگوں کا راستہ دیکھو جن پر اللہ نے اپنا انعام کیا، وہ بتائیں گے تمہیں کہ اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب کا مطلب کیا ہے اور اس پر کس طرح عمل کریں؟ اللہ تبارک و تعالی نے ابتدا ہی سے یہ سلسلہ جاری رکھا ہے۔
کتاب اللہ پر عمل کے لیے رجال اللہ کی ضرورت
دو چیزیں ساتھ ساتھ اتاری ہیں، (١) ایک تو اللہ نے کتاب اتاری، تورات آئی، انجیل آئی، زبور آیا اورآخر میں قران مجید آیا ۔ (٢) دوسرے پیغمبر بھیجے: اللہ تبارک و تعالی نے کوئی کتاب بغیر پیغمبر کے نہیں اتاری۔ کیوں ؟ اس لیے تاکہ پیغمبر یہ بتائے کہ اس کتاب کا مطلب کیا ہے؟ اور اس پر عمل کرنے کا طریقہ کیا ہوتا ہے؟ اور لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ تم اس پیغمبر کی اتباع کرو، پیغمبر کے پیچھے چلو، پیغمبر کی ذات پر ایمان لاؤ، اور اس کے طریقے پر عمل پیرا ہو۔ دو چیزیں ساتھ ساتھ چلتی ہیں کتاب اللہ اور رجال اللہ۔ اللہ کی کتاب اور اللہ کے رجال دونوں کے امتزاج سے دین کی صحیح سمجھ پیدا ہوتی ہے ، گمراہی جو پھیلی ہے وہ اس طرح پھیلی ہے کہ کچھ لوگوں نے کتاب کو تو پکڑ لیا اور اللہ نے جو پیغمبر بھیجے تھے اور پیغمبروں کے ذریعے ہدایت کا اور صحبت کا جو سامان دیا تھا ، اس سے قطع نظر کر لی ، ہم بس اللہ کی کتاب پڑھیں گے ، ہمارے پاس اللہ کی کتاب موجود ہے ، ہمیں نمونوں کی کیا ضرورت ہے ؟ العیاذ باللہ العظیم۔
قرآن سمجھنے کے لیے نمونہ کی ضرورت
ارے اگر نمونے کی ضرورت نہ ہوتی ، تو پیغمبروں کو بھیجنے کی ضرورت کیا تھی ؟ مکہ کے کافر کہتے تھے : قران ہمارے اوپر براہ راست کیوں نازل نہیں ہوا ؟ اللہ تعالی نے ایسا نہیں کیا کیونکہ انسانوں کی ہدایت کے لیے تنہا کتاب کافی نہیں ہوا کرتی، جب تک معلم و مربی اس کتاب کا موجود نہ ہو، یہ انسان کی فطرت ہے ، دنیا کا کوئی بھی علم و فن آدمی صرف کتاب کے مطالعہ سے حاصل نہیں کر سکتا ، جب تک اس کا مربی موجود نہ ہو۔ خطبات عثمانی ، جلد ١ص ٢٠٥ بحوالہ: اسلام اور دور حاضر کے شبہات و مغالطے صفحہ ٥٢-٥٣