حضرت مولانا محمد قاسم ناناتوی ؒ کے ایک واقعہ پر اعتراض کا جواب

حضرت مولانا محمد قاسم ناناتوی ؒ کا قبر سے نکل کر دیوبند مدرسہ جانے پر اعتراض کا جواب

حجۃ الاسلام والمسلمین ،قاسم العلوم والخیرات ، بانی دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا محمد قاسم ناناتوی ؒ کے ایک واقعہ پر رضاخانیوں ، غیرمقلدین اور مرزا محمد علی انجینیئر کی طرف سے اعتراض کیا جاتا ہے،کہ جب حجۃالاسلام حضرت مولانا محمد قاسم ناناتوی ؒ انتقال فرما چکے اور قبر میں دفن کیے جاچکے تو پھر اپنی قبر سے نکل کر ( دارالعلوم دیوبند) مدرسہ کیسے پہنچے؟ وہ بھی جسد عنصری کے ساتھ ؟ اور پھر دو لوگوں کے درمیان صلح کراکر واپس اپنی قبر میں تشریف لے گئے ؟ یہ تو عقل و نقل کے خلاف ہے؟

جواب سے پہلے مکمل واقعہ نقل کیا جاتا ہے ؛ تاکہ پورا پس منظر آپکے سامنے آجائے اور کس عبارت پر اعتراض ہے وہ معلوم ہوسکے ۔

حضرت مولانا محمد قاسم ناناتوی ؒ کے قبر سے نکلنے کا واقعہ

حکایت نمبر ٢٤٢: عم محترم حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب مرحوم نے فرمایا: کہ مولوی احمد حسن صاحب امروزی اور مولوی فخر الحسن صاحب گنگوہی میں باہم معاصرانہ چشمک تھی اور اس نے بعض حالات کی بنا پر ایک مخاصمہ اور منازعہ کی صورت اختیار کر لی، اور ( شیخ الہند) مولانا محمود حسن صاحب دیوبندی وہ اصل جھگڑے میں نہ شریک تھے ، نہ انہیں اس قسم کے امور سے دلچسپی تھی ؛ مگر صورتحال ایسی پیش آئی کہ مولانا بھی بجائے غیر جانبدار رہنے کے کسی ایک جانب جھک گئے اور یہ واقعہ کچھ طول پکڑ گیا، اسی دوران ایک دن علی الصبح بعد نماز فجر ( مہتمم دارالعلوم دیوبند) مولانا رفیع الدین صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے مولانا محمود حسن صاحب ؒ کو اپنے حجرے میں بلایا ، جو دارالعلوم دیوبند میں ہے ، مولانا حاضر ہوئے اور بند حجرے کے کیواڑ ( دروازہ) کھول کر اندر داخل ہوئے ، موسم سخت سردی کا تھا، مولانا رفع الدین صاحب رحمت اللہ علیہ نے فرمایا : کہ پہلے یہ میرا روئی کا لبادہ دیکھ لو، مولانا نے لبادہ دیکھا تو تر تھا اور خوب بھیگ رہا تھا، فرمایا: کہ واقعہ یہ ہے کہ ابھی ابھی مولانا نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ جسد عنصری کے ساتھ میرے پاس تشریف لائے تھے، جس سے میں پسینہ پسینہ ہو گیا اور میرا لبادہ تر بتر ہو گیا، اور یہ فرمایا : کہ محمود حسن سے کہہ دو کہ وہ اس جھگڑے میں نہ پڑے ، بس میں نے یہ کہنے کے لیے بلایا ہے ، مولانا محمود حسن صاحب نے عرض کیا کہ حضرت میں آپ کے ہاتھ پر توبہ کرتا ہوں، کہ اس کے بعد میں اس قصے میں کچھ نہ بولوں گا۔

مجھے بھی پڑھیں: وقف قانون 2025کیوں قبول نہیں؟

حضرت نانوتوی ؒ کے واقعہ پر اعتراض کا خلاصہ

اس میں بنیادی طور پر اعتراض یہ ہے کہ : (١) حجۃالاسلام حضرت مولانا محمد قاسم ناناتوی ؒ اپنی قبر سے جسد عنصری کے ساتھ دیوبند مدرسہ میں تشریف لے گئے (٢) دارالعلوم دیوبند کے مہتمم حضرت مولانا رفیع الدین صاحب رحمتہ اللہ علیہ سے ملاقات ہوئی (٣) حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ کو جھگڑے سے دور رہنے کا مشورہ دیا (٤) پھر واپس اپنی قبر تشریف لے گئے (٥) اس واقعہ سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالٰی نے بزرگوں کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ جب چاہیں ، جہاں چاہیں اپنے اختیار سے جا سکتے ہیں، مدد کرسکتے ہیں، تصرف کرنے کا بھی اختیار ہے (٦) مردے اپنے گھر بھی تشریف لے جا سکتے ہیں (٧) عام لوگوں سے بات بھی کر سکتے ہیں، جبکہ یہ اسلامی عقیدہ ( علماء دیوبند کے موقف ) کے خلاف ہے ؟

حضرت نانوتوی ؒ کے قبر سے نکلنےپر اعتراض کا جواب

اس حکایت اور واقعہ کے‌نقل کے بعد حکیم الامت ، مجدد دین و ملت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ تعالی نے حاشیہ میں مختصراً جواب دیا ہے ۔یہ واقعہ روح کے تمثل کا تھا ، اور اس کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں ، ایک(١) یہ کہ جسد مثالی تھامگر مشابہ جسد عنصری کے ۔ دوسری (٢) صورت یہ کہ روح نے خود عناصر میں تصرف کرکے جسد عنصری تیار کر لیا ہو، مگر وقت گذر جانے پر پھر اس مرکب کو تحلیل کردیا جاتاہے (شت)

اس جواب کا خلاصہ یہ ہے : کہ اس میں حجۃالاسلام حضرت مولانا محمد قاسم ناناتوی ؒ کا ذاتی کچھ اختیار  نہ تھا ، وہ اپنے اختیار اور اپنے عمل دخل سے قبر سے نکل کر (دارالعلوم دیوبند ) مدرسہ تشریف نہیں لے گئے ؛ بلکہ اللہ رب العزت کے فعل سے کرامتاً ایسا ہؤا ، اور کرامت کا ثبوت قرآن و حدیث سے ہے ، اس لیے کرامت پر ایمان رکھنے والوں کے لیے قابل اعتراض نہیں اور ایسا واقعہ پیش آنا ( عقلاً و نقلاً ) محال بھی نہیں ۔ اس سے زیادہ عجیب و غریب واقعات قرآن و حدیث کے اندر موجود ہیں ۔

اس سلسلہ میں دارالعلوم دیوبند کے ایک قابل قدر استاذ حضرت مولانا فہیم الدین بجنوری صاحب دامت برکاتہم العالیہ کا مضمون پیش کیا جاتا ہے ، جس سے اس واقعہ پر ہونے والے اعتراض کا آسانی سے جواب مل جائے گا ۔ان شاءاللہ

حضرت نانوتوی ؒ کی بعد از وفات دارالعلوم دیوبند آمد

از قلم : محمد فہیم الدین بجنوری

٢٦/ رمضان المبارک ١٤٤٦ھ مطابق ٢٧/ مارچ ٢٠٢٥ء

دعوی یہ نہیں ہے کہ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی علیہ الرحمہ بعد وفات اپنے اختیار سے واپس تشریف لائے، سورہ انبیاء کی نفی والی آیت کا محمل یہی ہے ، یعنی مردے اپنے اختیار سے واپس نہیں آ سکتے، ہمارا مدعا یہ ہے ” کہ اللہ تعالی نے ان کی روح کو ایک اہم تصویر پر معمور کیا اور وہ انسانی صورت میں یا مثالی پیکر میں دارالعلوم تشریف لائے”  یہ فعل خدا ہے ، وہ ہر چیز پر قادر ہے اور یہ کسی نص کے خلاف ہے نہ عقلاً بعید ، اس واقعہ کا کوئی جزو کسی بھی نقل یا عقل سے متصادم نہیں ، اس سے زیادہ عجیب تو👇

نمبر (١) حضرت عزیر علیہ السلام کا حال ہے ، وفات پر ایک صدی گزرنے کے بعد ان کو دوبارہ زندگی عطا ہوئی ، پھر انہوں نے اس حیات ثانیہ میں فرائض نبوت سر انجام دیے۔ ؛ جبکہ حضرت نانوتوی علیہ الرحمہ کا قصہ چند ساعتوں تک محدود ہے ۔

نمبر (٢) نیز سورہ بقرہ کا ٹائٹل قصہ بھی اسی قبیل سے ہے ، مقتول زندہ ہوا اور اس نے خود اپنے قاتل کا نام بتایا

نمبر (٣ حضرت عیسی علیہ السلام اللہ کے حکم سے جن مردوں کو زندہ کرتے تھے وہ لوگوں سے ہم کلام بھی ہوتے تھے۔

نمبر (٤) حضرت زید بن خارجہ رضی اللہ تعالی عنہ کے بعد از وفات طویل گفتگو جملہ مؤرخین اور کبار محدثین نے ذکر کی ہے، جس میں انہوں نے بیر علیس پر خاتم النبی کے گم ہونے اور فتنوں کے سر اٹھانے کی پیشین گوئی تک کی تھی ؛ حتی کہ امام بخاریؒ نے بھی تاریخ کبیر میں اسے لے آئے۔

نمبر (٥) آپ علامہ ابن قیم کی کتاب الروح پڑھیں، اس میں درج واقعات کے سامنے حضرت مولانا قاسم نانوتوی علیہ الرحمہ کا قصہ کچھ بھی نہیں، غیر مقلد کتاب کی نسبت کے منکر ہیں ؛ مگر یہ سر پکڑنا مفید مطلب نہیں ۔ کتاب الروح ابن قیم ہی کی تصنیف ہے ، نسبت بھی ثابت ہے اور دنیا ابن قیم کے قلم کو خوب پہچانتی ہے ۔

اس قسم کے واقعات کی توجیح مشترک ہے، کہ ان کے اختیار کو دخل نہیں تھا ، اللہ پاک نے اپنی قدرت کا مظاہرہ کیا اور وہ ہر امر پر حاوی ہے۔

علماء دیوبند کا اعتدال

علماء دیوبند سے اعتدال سیکھو ! یہ عقیدہ رکھنا کہ اولیاء بعد از وفات تصرف میں با اختیار ہیں ایک انتہا ہے ، اور یہ ضد کے مردہ اللہ کے حکم کو اجازت سے بھی کوئی تصرف نہیں کر سکتا دوسری انتہا ہے، افراطی فرقہ پہلی انتہا میں سمٹا ہوا ملنگ ہے اور تفریطی فرقہ دوسری انتہاء میں گھسیٹا ہوا ہے ۔ دیوبند نے راہِ اعتدال اختیار کی کہ مردہ اپنے اختیار سے کچھ نہیں کر سکتا ، اس کی میعاد آزادی ختم ہو گئی ، ہاں اللہ کے حکم سے وہ متعلقہ امر انجام دے سکتا ہے ۔

حضرت نانوتوی علیہ الرحمہ کا قصہ سچا ہے، کہ ناقل صادق الامین ہیں اور وہ اسی دوسری قسم میں داخل ہے، قرآن و سنت سے یہ ثابت ہے کہ برزخ میں ارواح زندہ ہیں ، حالت شعور میں ہیں ، ثواب اور عذاب سے گزرتی ہیں، دنیا سے ان کا تعلق منقطع ہو جاتا ہے سوائے استثنائی صورتوں کے ،درج بالا واقعات بشمول زیر بحث واقعہ کے اذن الہی کی وہی خاص صورتیں ہیں۔

ایک اعتراض کا جواب

اس تفصیل پر کچھ سر سری نظر ڈالنے والے یہ اعتراض کرسکتے ہیں : کہ حضرت عزیر علیہ السلام اور حضرت عیسٰی علیہ السلام تو نبی برحق ہیں، اور حضرت نانوتوی علیہ الرحمہ نبی نہیں تو مثال میں حضرت عزیر علیہ السلام اور حضرت عیسٰی علیہ السلام کے واقعہ کو پیش کرنا درست کیسے ہو سکتا ہے؟

جواب : حضرت عزیر علیہ السلام بیشک نبی ہیں اور حضرت نانوتوی علیہ الرحمہ نبی نہیں مگر نقل کرنے کا اصل مقصد یہ بتانا ہے کہ اگر حضرت نانوتوی علیہ الرحمہ کا قبر سے نکلنا ناممکن مسئلہ ہے تو حضرت عزیر علیہ السلام کا واقعہ بھی ناممکن اور اللہ تعالی کے لیے مشکل ہونا چاہیے ؛ کیوں کہ حضرت عزیر علیہ السلام کو وفات کے ایک صدی ( ١٠٠ سال ) بعد دوبارہ زندہ کیا گیا تھا ، جب اللہ پاک کے لیے یہ مشکل نہیں تو حضرت نانوتوی علیہ الرحمہ کو قبر سے‌نکالنا کیا مشکل ہے؟

اسکے علاوہ مزید یہ کہ چلو مان لیتے ہیں حضرت عزیر علیہ السلام نبی تھے ؛ لیکن ان کے علاوہ بھی تو بہت سے حضرات کا تذکرہ کیا گیا وہ تو نبی نہیں تھے،مثلا نمبر (١) حضرت عزیر علیہ السلام کے ساتھ ان کے مردہ و بوسیدہ ہڈیوں والے گدھے کو بھی زندہ کیا گیا تھا۔ نمبر (٢) سُورۃ البقرہ کا واقعہ ، ایک عام شخص کو قتل کیا گیا تھا، قاتل کون ہے یہ معلوم نہیں ہو رہا تھا ، اللہ پاک کے حکم سے گائے ذبح کرکے اس مقتول سے ملایاگیا تو وہ شخص زندہ ہوکر قاتل کا نام بتایا اور پھر مر گیا۔ نمبر (٣) حضرت زید بن خارجہ ؓ کا واقعہ اور یہ نبی نہیں تھے۔(٤) حضرت عیسیٰ علیہ السلام جن پرندوں کو حکم کرتے، یا اللہ پاک کے حکم سے‌مردوں کو زندہ کرتے نمبر (٥) علامہ ابن قیم کی کتاب الروح میں درج واقعات ۔

خلاصہ جواب

خلاصہ کلام یہ ہے کہ حضرت نانوتوی علیہ الرحمہ کا یہ واقعہ درست ہے اور قابل اعتراض بھی نہیں، قابل اعتراض جب ہوتا کہ انکو صاحب اختیار مانا جاتا ۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top