کون سی پریشانی رحمت ہے اور کون سی عذاب؟
محمد امتیاز پلاموی ، مظاہری
افادات : حضرت شیخ الاسلام مفتی محمّد تقی عثمانی صاحب حفظہ اللہ تعالٰیٰ
پریشانی دو قسم کی ہوتی ہیں
جب انسان کسی پریشانی میں ہو ، یا کسی بیماری ، یا تکلیف میں ہو، یا افلاس اور تنگدستی میں ہو، یا قرض کی پریشانی یا بے روزگاری کی پریشانی میں ہو ، یا گھر کی طرف سے پریشانی ہو ، اس قسم کی جتنی پریشانیاں جو انسان کو دنیا میں پیش آتی ہیں، یہ دو قسم کی ہوتی ہیں ۔
پہلی قسم کی پریشانی
پہلی قسم کی پریشانیاں وہ ہیں جو اللہ تعالی کی طرف سے قہر اور عذاب ہوتا ہے ، گناہوں کی اصل سزا تو انسان کو آخرت میں ملنی ہے ؛ لیکن بعض اوقات اللہ تعالی انسان کو دنیا میں بھی عذاب کا مزہ چکھا دیتے ہیں ، جیسے قران کریم میں ارشاد ہے : وَلَنُذِيقَنَّهُم مِّنَ الْعَذَابِ الْأَدْنَىٰ دُونَ الْعَذَابِ الْأَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ ( سجده ٢١) یعنی آخرت میں جو بڑا عذاب آنے والا ہے ہم اس سے پہلے دنیا میں بھی تھوڑا سا عذاب چکھا دیتے ہیں تاکہ یہ لوگ اپنی بد اعمالیوں سے بعض باز آ جائیں۔
دوسری قسم کی پریشانی
اور دوسری قسم کی تکالیف اور پریشانیاں وہ ہوتی ہیں ، جن کے ذریعہ بندے کے درجات بلند کرنے ہوتے ہیں اور اس کے درجات کی بلندی اور اس کو اجر و ثواب دینے کے لیے اس کو تکلیفیں دی جاتی ہیں۔
پریشانی جو باعثِ عذاب ہے
لیکن دونوں قسم کی پریشانیوں اور تکالیف میں فرق کس طرح کریں گے کہ یہ پہلی قسم کی پریشانی ہے یا دوسری قسم کی پریشانی ہے؟ ان دونوں قسموں کی پریشانیوں اور تکالیف کی علامات الگ الگ ہیں ، وہ یہ کہ اگر انسان ان تکالیف کے اندر اللہ تعالی کی طرف رجوع کرنا چھوڑ دے اور اس تکلیف کے نتیجے میں وہ اللہ تعالی کی تقدیر کا شکوہ کرنے لگے:
مثلا یہ کہنے لگے کہ نعوذ باللہ اس تکلیف اور پریشانی کے لیے میں ہی رہ گیا تھا؟ میرے اوپر یہ تکلیف کیوں آ رہی ہے ؟ یہ پریشانی مجھے کیوں دی جا رہی ہے؟ وغیرہ اور اللہ کی طرف سے دیے ہوئے احکام چھوڑ دے ، مثلا پہلے نماز پڑھتا تھا اب تکلیف کی وجہ سے نماز پڑھنا چھوڑ دیا ، یا پہلے ذکر و اذکار کے معمولات کا پابند تھا اب وہ معمولات چھوڑ دیے اور اس تکلیف کو دور کرنے کے لیے دوسرے ظاہری اسباب تو اختیار کر رہا ہے لیکن اللہ تعالی سے توبہ و استغفار نہیں کرتا ، دعا نہیں کرتا ، یہ اس بات کی علامات ہیں کہ جو تکلیف اس پر آئی ہے یہ اللہ تعالی کی طرف سے اس انسان پر قہر اور عذاب ہے اور سزا ہے ۔ اللہ تعالی ہر مومن کو اس سے محفوظ رکھے ۔ آمین
کون سی پریشانی رحمت ہے
اور اگر تکالیف آنے کے باوجود اللہ تعالی کی طرف رجوع کر رہا ہے اور دعا کر رہا ہے کہ یا اللہ میں کمزور ہوں اس تکلیف کو برداشت نہیں کرسکتا، یا اللہ ! مجھے اس تکلیف سے اپنی رحمت سے نجات دے دیجئے اور دل کے اندر اس تکلیف پر شکوہ نہیں ہے، وہ اس تکلیف کا احساس تو کر رہا ہے ، رو بھی رہا ہے ، رنج اور غم کا اظہار بھی کر رہا ہے ؛ لیکن اللہ تعالی کی تقدیر پر شکوہ نہیں کر رہا ہے بلکہ اس تکلیف میں وہ پہلے سے زیادہ اللہ تعالی کی طرف رجوع کر رہا ہے ، پہلے سے زیادہ نمازیں پڑھ رہا ہے ، پہلے سے زیادہ اللہ سے دعائیں مانگ رہا ہے ، تو یہ اس بات کی علامت ہے یہ تکلیف اللہ تعالی کی طرف سے بطور ترقی درجات ہے اور یہ تکالیف اس کے لیے اجر و ثواب کا باعث ہے اور یہ تکلیف بھی اس کے لیے رحمت ہے اور یہ اس انسان کے ساتھ اللہ کی محبت کی دلیل اور علامت ہے۔
اصلاحی خطبات جلد 7 صفحہ۔ 108۔ اسلام اور دور حاضر کے شبہات و مغالطے صفحہ 38/39