قوموں کی تقدیر علم و دانش گاہ پر منحصر
حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب
صدر ال انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ
اسلام سے پہلے مختلف قوموں میں عورتوں کو میراث نہیں ملتی تھی، ان کا خیال تھا کہ جو لوگ دشمن سے پنجہ آزمائی کر سکتے ہیں اور قوم کی حفاظت اور مدافعت کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں انہی کو میراث پانے اور خاندان کی املاک میں حصہ دار بننے کا بھی حق حاصل ہے ؛ غرض جسمانی طاقت اور مقابلے کی قوت کو بڑی اہمیت حاصل تھی ؛ اسی کو قوموں کی سربلندی کا راز اور غلبہ و اقتدا کا وسیلہ تصور کیا جاتا تھا۔

قوموں کی تقدیر تعلیم سے متعلق ہے
اور بڑی حد تک زمانے کے حالات کے لحاظ سے یہ بات درست بھی تھی ؛ لیکن آج حالات تبدیل ہو چکے ہیں اور اب قوموں کی تقدیر میدان جنگ کی للکار اور شمشیر و آہن کی جھنکار کے بجائے علم و تحقیق کے مراکز اور دانش گاہوں سے متعلق ہو گئی ہے ۔
جو قوم علم و فن سے عاری اور فکر و دانش سے محروم ہو ، خواہ وہ کتنی ہی بڑی تعداد رکھتی ہو ؛ لیکن اس کی حیثیت مٹی کے ڈھیر کی ہے ، جو ہمیشہ پاؤں تلے روندی اور قدموں کے نیچے بچھائی جاتیہے۔
اس کی ایک کھلی ہوئی مثال : جاپان اور خود ہمارا ملک ہندوستان ہے ، ہم آبادی کے اعتبار سے دنیا کی دوسری سب سے بڑی طاقت ہیں اور ہمارے ملک کا رقبہ بھی کچھ کم نہیں، قدرتی وسائل جتنے اس ملک کو میسر ہیں ، کم ہی اس کی مثال ملے گی ، جاپان آبادی کے اعتبار سے بھی اور رقبہ کے اعتبار سے بھی ہم سے بہت چھوٹا ملک ہے، قدرتی وسائل میں بھی وہ ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتا ؛ لیکن آج ہم کو جاپان کے سامنے دست سوال پھیلانا اور کشکول گدائی بڑھانا پڑتا ہے، یہ صورتحال محض علم و دانش کی طاقت کا ادنی کرشمہ ہے ۔
اسلام کی پہلی وحی تعلیم
اسلام وہ مذہب ہے جس نے اپنی آمد کے اول دن سے علم پر زور دیا ہے ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم جس سماج میں پیدا ہوئے اور نبوت سے سرفراز کیے گئے، اس میں کیا کچھ برائیاں اور کوتاہیاں نہیں تھیں
- شرک عام تھا
- سینکڑوں دیویوں اور دیوتاؤں کی پوجا ہوتی تھی
- طاقت کی حکمرانی تھی
- نہ جان محفوظ تھی
- اور نہ مال
- اور نہ عزت و آبرو
- بے حیائی اور بے شرمی کی کوئی بات نہیں تھی جو سماج میں نہ پائی جاتی ہو ۔
بظاہر خیال ہوتا ہے کہ ان حالات میں انسانیت کے نام اللہ تعالی کا پہلا پیغام توحید خداوندی کی دعوت اور شرک و بت پرستی کی تردید کا آنا چاہیے تھا، کہ اسلام کی پوری تعلیم کا لب لباب اور خلاصہ یہی خدا کی وحدانیت کا تصور ہے، یا پھر پہلی وحی ظلم و جور کی مذمت اور عدل و انصاف کی ترغیب کی بابت ہونی چاہیے تھی ؛ کیونکہ انسان سب سے زیادہ ضرورت مند ایسے سماج کا ہوتا ہے جو پُر امن ہو ، ظلم و زیادتی سے محفوظ ہو اور بقائے باہم کے اصول پر قائم ہو ۔
لیکن غور فرمائیے کہ ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو پہلی پہلی وحی نازل ہوئی ، اس میں صراحتاً ان باتوں کا کوئی ذکر نہیں ؛ بلکہ فرمایا گیا کہ : اپنے رب کے نام سے پڑھیے جو تمام کائنات کا خالق ہے۔ یعنی سب سے پہلے پیغمبر کے ذریعے انسانیت کو جس بات کی دعوت دی گئی وہ تعلیم ہے ؛ کیونکہ علم ایسا سرچشمہ ہے جس سے تمام بھلائیاں پھوٹتی ہیں اور تمام مفاسد کا مداوا ہوتا ہے ۔
اسی لیے حضرت امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ : علم روشنی ہے ( العلم نور ) ۔ اگر کوئی مکان اندھیرا ہو تو اس میں چور اور ڈاکو کا داخل ہونا بھی آسان ہوتا ہے اور وہ سانپ کیڑوں کی بھی آماجگاہ بن جاتا ہے، ان میں سے ہر ایک کا مقابلہ الگ الگ دشوار ہے ؛ لیکن چراغ جلا دیا جائے اور مکان روشن ہو جائے تو نہ چور اور ڈاکو کو گھر میں آنے کا حوصلہ ہوگا، نہ سانپ کیڑے اس مکان کو اپنا ٹھکانہ بنائیں گے۔
علم کو روشنی کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا ہے ، ہر برائی کو الگ الگ دور کرنا اور ان کا علیحدہ علیحدہ ہ مقابلہ کرنا آسان ہے؛ لیکن تمام برائیوں اور مفاسد کا اصل سرچشمہ جہالت اور علم سے محرومی ہے۔ کسی سماج میں جب علم کی روشنی آ جائے تو خود بخود سماج کی برائیاں دور ہوں گی اور علم و دانش کی آگ ان کو پھونک کر رکھ دے گی۔
تعلیم گاہ کی ضرورت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا اتنا پاس و لحاظ تھا کہ مکہ میں ہر طرح کی دشواری کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دارِ ارقم کو تعلیم و تربیت کا مرکز بنایا اور اول دن سے اپنے رفقاء ( صحابہ کرام ؓ) کی تعلیم و تربیت کی طرف متوجہ رہے ، مکہ کا جو لُٹا پِٹا قافلہ مدینہ آیا اس میں سینکڑوں بے گھر و در تھے۔
خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی ذاتی مکان میسر نہیں تھا اور حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر میں مہمان تھے؛ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ اپنے لیے گھر کی فکر کی اور نہ اپنے ان ساتھیوں کے لیے جو مستقل اقامت گاہ سے محروم تھے؛ بلکہ سب سے پہلے مسلمانوں کے لیے ایک عبادت گاہ اور دینی مرکز کی حیثیت سے مسجد نبوی کی تعمیر فرمائی اور پہلی باضابطہ درسگاہ ایک چبوترہ کی شکل میں قائم کی جسے صفہ کہا جاتا تھا ۔
صفہ مسلمانوں کا مرکزِ علم
یہی چھوٹی سی جگہ جزیرۂ عرب کے کونے کونے سے آنے والے مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کا مرکز تھی اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے منتظم اور استاد تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل ہمیں بتاتا ہے کہ مسلمان گھر بار اور دوسرے اسباب اسائش سے بڑھ کر اپنے بچوں کی تعلیم پر اولین توجہ دے، کہ جو قوم اپنا گھر پھونک کر علم کا چراغ جلانا نہیں جانتی ، ہو سربلندی و درخشانی کبھی اس قوم کے حصے میں نہیں آسکتی۔
بدر کے قیدیوں سے حصول علم
اگر تاریخ کے عجوبہ اور حیرت انگیز واقعات کو جمع کیا جائے ، تو اس میں ایک یہ بھی ہوگا کہ غزوہ بدر میں 70 اہل مکہ مسلمانوں کے ہاتھوں گرفتار کیے گئے ، اس وقت مسلمان سخت معاشی مشکلات سے گزر رہے تھے، نہ ان کو معقول غذا میسر تھی، نہ ضرورت کے مطابق لباس تھا اور نہ مناسب رہائش گاہ اور تو اور خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں ہفتوں چولہا سلگنے کی نوبت نہ آتی تھی، اس عہد میں شاید ہی کوئی مسلمان گھر ہو جو فاقہ مستی کی لذت سے نا آشنا رہ گیا ہو۔
یہ موقع تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فدیہ کے طور پر اہل مکہ سے زیادہ سے زیادہ پیسے حاصل کر لیتے اور مدینے کی معیشت کو سہارا دیتے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان اسیران بدر کا فدیہ یہ بھی مقرر کیا کہ : جو لوگ لکھنا پڑھنا جانتے ہوں وہ 10 مسلمانوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں۔
تعلیم وتربیت مسلمانوں کی اولین ضرورت
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل میں امت کے لیے اسوہ ہے ، کہ گو ہمیں بھوکے رہنا پڑے، ہماری کروڑوں کروٹیں فاقوں سے بے سکون ہوں اور دنیا کے اسباب راحت ہمیں کم سے کم میسر ہوں ؛ لیکن ہر قیمت پر اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کو اولیت دیں اور تعلیم سے محروم کر کے ہم ان کے اور پوری قوم کے مستقبل کو ضائع نہ ہونے دیں۔
غیر مسلموں سے علم حاصل کرنا
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل سے یہ بات بھی واضح ہوئی، کہ اسلام نے تعلیم میں کسی تنگ ذہنی اور تعصب کو راہ نہیں دی ہے، علم کا حصول بہرحال ایک نعمت ہے ،چاہے وہ غیر مسلموں سے حاصل ہو ؛ بلکہ ان لوگوں سے حاصل ہو جن سے ہماری زندگی کے وجود کو بھی خطرہ لاحق ہے، بشرطیکہ ان سے ہمارے ایمان و عقیدہ اور ہماری مذہبی قدروں کو نقصان کا اندیشہ نہ ہو۔
اسلام کسی بھی تعلیم یا زبان کا مخالف نہیں
اسلام کسی بھی ایسے علم کا مخالف نہیں، جو انسانیت کے لیے نافع ہو، نہ وہ کسی زبان کا مخالف ہے، خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعض رفقاء کو عربی زبان کے علاوہ بعض دوستی زبانوں کے سیکھنے کی ہدایت فرمائی اور فرمایا : کہ تمام ہی زبان اللہ کی پیدا کی ہوئی ہیں۔
علم نافع بہترین عبادت
علم نافع کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہترین عبادت قرار دیا ہے ۔ ( مجمع الزوائد ١/١٢٠) اور علم کے حصول کو ہر مسلمان کا مذہبی فریضہ مقرر فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ انسان کی موت کے بعد بھی تین چیزوں کا اجر اسے پہنچتا رہتا ہے ، من جملہ ان کے ایک ایسا علم ہے جس سے اس کے بعد بھی لوگوں کو نفع پہنچتا رہے ۔
مسلمانوں کی پستی کا سبب جہالت
افسوس کہ جس امت کو سب سے پہلے پڑھنے کی تعلیم دی گئی اور اس کے ہاتھوں میں قلم تھمایا گیا، وہی ہے کہ آج جہالت و ناخندگی اور تعلیم سے محرومی اس کے لیے وجہ امتیاز بنی ہوئی ہے، اور دبی کچلی قومیں بھی اس میدان میں اسے پیچھے چھوڑ چکی ہیں۔
ایک ایسی قوم کے لیے جس نے سینکڑوں سال تک اس ملک کے طول و عرض پر حکومت کی ہے، اور آج بھی اس ملک کا کوئی خطہ نہیں، جہاں اس کی فرما روائی اور عظمت رفتہ کے انمٹ اور قلب و نگاہ کو محو حیرت کر دینے والے نقوش موجود نہ ہوں ؛ مگر عظمت رفتہ کے یہ نقوش آج ہمیں منہ چڑھاتے ہیں اور زبان حال سے ہم پر قہقہ زن ہیں: کہ یہ کیسی قوم ہے کہ جس کے حال کو اس کے ماضی سے کوئی رشتہ نہیں۔
ذلت و پستی سے نکلنے کا حل
اس ذلت اور پستی سے نکلنے کے لیے اس کے سوا اور کوئی صورت نہیں ، کہ مسلم محلوں اور آبادیوں کے گلی کوچوں میں ، تعلیم کی ایسی ہی تحریک چلائی جائے ، جیسے الیکشن میں امیدوار ووٹوں کی بھیکھ مانگتا ہے۔ مسلمان پوری قوم کو اپنا خاندان و کنبہ تصور کریں ، وہ اپنے بچوں کی تعلیم پر بھی توجہ کریں اور اپنے پڑوسیوں کی بھی خبرگیری کریں، کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ کوئی طالب علم پڑھتے پڑھتے رک گیا ہو ، معاشی نہ ہمواری نے اس کے بڑھتے ہوئے قدم تھام لیے ہوں ، یا وہ نفسیاتی کم حوصلگی کا شکار ہو گیا ہو؟
مفت تعلیم کی ضرورت
ایسے بچوں کا حوصلہ بڑھائیں اور اجتماعی طور پر سماج کے ایسے بچوں کی تعلیمی کفالت قبول کریں، ایسی درسگاہیں قائم کریں جس کا نصب العین قوم کی خدمت ہو ، جو تعلیم کو تجارت اور روپیوں کا ٹکسال نہ سمجھتے ہوں ؛ بلکہ پوری امت کو ایک خاندان سمجھ کر ان کی خدمت کے لیے میدان عمل میں اترے ہوں ، جن کو ہوٹلوں اور معمولی کارخانوں میں کمسن مسلمان بچوں کا برتن دھونا اور جھاڑو دینا تڑپا دیتا ہو، جن کے چہرے بشرے سے ذہانت حویدہ ہے اور جن کی آنکھیں ان کے اندرونی زکاوت و فراست کی چغلی کھاتی ہیں۔
قوم کے مالداروں سے اپیل
- جب تک قوم کے سربرآوردہ لوگوں میں پوری قوم کے لیے درد اور کسک پیدا نہ ہو
- مسلمانوں کی پست حالی ، ان کی کروٹوں کو بے سکون اور ان کی آنکھوں کو بے ارام نہ کر دے
- مسلم تعلیمی ادارے مکان کی تعمیر کے بجائے انسان کی تعمیر کی طرف متوجہ نہ ہوں ،
- جو تعلیم و تعلم کو تجارت کے بجائے عبادت کا درجہ دینے پر آمادہ نہ ہوں
- اور پوری قوم میں یہ احساس نہ جاگے کہ تعلیم ہی سے ہماری تقدیر وابستہ ہے
- یہ ہماری شہ رگ ہے اور اس سے محرومی کے بعد کسی قوم کے لیے باعزت طور پر زندہ رہنا ناممکن ہے، تب تک ہمارا خابیدہ نصیب جاگ نہیں سکتا اور ہم روٹھے ہوئے ماضی کو منا کر واپس نہیں لا سکتے۔