حج کی فضیلت

سیدنا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
من حج فلم يرفث ولم يفسق رجع من ذنوبه كيوم ولدته امه. ( بخاري ١/٢٠٦)
ترجمہ: جو شخص اس طرح حج کرے ، کہ اس میں کوئی گناہ کا کام اور بے حیائی کی بات نہ کرے ، تو وہ گناہوں سے ایسے پاک ہو کر واپس ہوتا ہے ، جیسے آج ہی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو۔
حج کا سلسلہ کب سے جاری ہے؟
دنیا میں حج کی عبادت کا سلسلہ انسانِ اول سیدنا حضرت آدم علی نبینا و علیہ الصلاۃ والسلام کے زمانے سے جاری ہے ، تفسیر کی روایات سے ثابت ہے کہ: سیدنا حضرت آدم علیہ السلام نے ہندوستان سے مکہ معظمہ آ کر اللہ تعالی کے حکم سے، فرشتوں کی رہنمائی میں، بیت اللہ شریف کی بنیادیں قائم فرمائی اور حج ادا فرمایا اور اس کے بعد برابر حجاز مقدس کے اسفار فرماتے رہے۔
حضرت آدم علیہ السلام کے حج و عمرہ کی تعداد
جن میں سے 300 اسفار حج کے لیے تھے اور 700 اسفار عمرے کے لیے فرمایا ۔ (اعیان الحجاج محدث کبیر، امیر الہند حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی ٢٢-٢٤) ۔
حضرت آدم علیہ السلام کی خاص دعاء
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کہ جس وقت حضرت آدم علیہ السلام زمین پر اتارے گئے ، تو انہوں نے خانہ کعبہ کا سات چکر طواف کیا ، اب جہاں مقام ابراہیم ہے اس کے مقابل دو رکعت نماز ادا کی، اس کے بعد یہ دعا فرمائی:
اللهم انك تعلم سريرتي وعلانيتي فاقبل معذرتي وتعلم حاجتي فاعطني سؤلي وتعلم ما في نفسي فاغفر لي ذنبي، اللهم اني اسالك ايماناً يباشر قلبي ويقيناً صادقًا حتى اعلم انه لا يصيبني الا ما كتبت لي ورضاً بما قسمت لي.
ترجمہ: اے اللہ تو میرا باطن اور ظاہر سب جانتا ہے، پس میری معذرت قبول فرما لے اور تو میری حاجت کو بھی جانتا ہے ؛ لہذا میری مانگ پوری کر دے اور تو وہ سب جانتا ہے جو میرے نفس میں ہے، پس میرے گناہ بخش دے، اے اللہ! میں تجھ سے ایسا ایمان مانگتا ہوں جو میرے دل میں پیوست ہو اور ایسا سچا یقین جس سے مجھے عین الیقین حاصل ہو ، کہ تو نے جو کچھ لکھ دیا ہے اس کے سوا ہرگز نہ مجھ کو کچھ ملے گا، نہ کوئی تکلیف پہنچے گی اور یہ چاہتا ہوں کہ تیری تقسیم سے راضی رہوں۔
جب حضرت ادم علیہ السلام یہ دعا کر چکے ، تو حق تعالی شانہ نے وحی بھیجی کہ : ہم نے تمہاری خطاء بخش دی اور تمہاری اولاد میں سے جو کوئی ہمارے یہاں آ کر تمہاری اس دعا کو پڑھے گا ہم اس کے گناہ بھی بخش دیں گے ۔ (مجمع الزوائد ١٠/١٧٣ کتاب الادعیہ، اعیان الحجاج ١/ ٢٢-٢٣ )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ جب سیدنا حضرت آدم علیہ السلام حج کے مناسک ادا کر کے فارغ ہوئے تو بارگاہ خداوندی میں عرض کیا کہ اے رب! ہر عمل کرنے والے کو بدلہ ملتا ہے ہمارے لیے کیا فیصلہ ہے؟ تو اللہ تعالی نے فرمایا : اے آدم میں نے تمہاری تو بخشش کر ہی دی اور تمہاری اولادوں میں سے جو میرے گھر کے پاس آ کر اپنے گناہوں سے توبہ کرے گا میں اسے بھی بخش دوں گا۔ البحر العمیق ١/٧٦ بحوالہ اخبار مکہ)
حج کرنے پر مبارک بادی
اور ایک روایت میں ہے کہ جب حضرت آدم علیہ السلام حج فرما چکے ، تو فرشتوں نے آپ سے ملاقات کر کے فرمایا : کہ آپ کو حج مبارک ہو، ہم اس عبادت کو آپ سے پہلے 2 ہزار سال سے کرتے آئے ہیں ، حضرت ادم علیہ السلام نے پوچھا: کہ تم لوگ طواف کرتے ہوئے کیا پڑھتے ہو؟ تو فرشتوں نے جواب دیا کہ ہم یہ کلمہ پڑھتے ہیں:
سبحان الله والحمد لله ولا اله الا الله والله اكبر. چنانچہ پھر حضرت آدم علیہ السلام نے بھی طواف میں اس کلمے کی کثرت فرمائی ۔ ( البحر العمیق ١/٧٧)
سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اعلان حج
بعد میں جب سیدنا حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے بیت اللہ شریف کی تعمیر فرمائی، جس کے آثار طوفان نوح کے بعد مستور ہو چکے تھے ، تو وہ تعمیر مکمل ہونے پر اللہ تعالی نے حکم دیا
واذن في الناس بالحج ياتوك رجالا وعلى كل ظامر ياتين من كل فج عميق . ( سورة الحج ٢٦)
ترجمہ: اور آپ لوگوں میں حج کا اعلان فرما دیں ، وہ چلے آئیں آپ کے پاس پیدل اور دبلے دبلے اونٹوں پر سوار ہو کر، چلے آئیں دور دراز راہوں سے ۔
سیدنا حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے عرض کیا: کہ الٰہ العالمین ! میری آواز آخر کہاں تک پہنچے گی؟ اللہ تعالی نے فرمایا : اعلان تمہارا کام ہے، پہنچانا ہمارے ذمہ ہے ، پس سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے حکم کی تعمیل فرماتے ہوئے بلند پہاڑی پر چڑھ کر اعلان فرمایا
کہ اے لوگو ! تمہارے رب نے اپنا گھر بنایا ہے ؛ لہذا اس کا حج کرو ، چنانچہ اللہ تعالی نے اپنی قدرت کاملہ سے اس ندائے ابراہیمی کو نہ صرف اس وقت موجود تمام مخلوقات تک پہنچایا ؛ بلکہ جو لوگ ماں کے پیٹوں اور باپ کی پیٹھوں میں تھے ان سب تک یہ آواز پہنچا دی اور جس نے اس ندا پر جتنی مرتبہ لبیک کہا اس کو اتنی ہی مرتبہ بیت اللہ حاضری کی سعادت نصیب ہوگی ۔ انشاءاللہ تعالی ( ملخص : تفسیر ابن کثیر مکمل ٨٩٥ ۔ انوار مناسک : مفتی شبیر احمد قاسمی ٩٠-٩٧ ۔
حج کی فرضیت کس سن میں ہوئی ہے
حج اسلام کا اہم ترین رکن ہے ، جو سنہ ٩ نو ہجری میں فرض کیا گیا ، قرآن پاک میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا: ولله على الناس حج البيت من استطاع اليه سبيلا ومن كفر فان الله غني عن العالمين. ( آل عمران ٩٧)
ترجمہ: اور اللہ کا حق ہے لوگوں پر اس کے گھر کا حج کرنا ، جو شخص اس کی طرف راہ چلنے کی قدرت رکھتا ہو اور جو شخص ناشکری کرے ، تو اللہ تبارک و تعالی کو سارے جہاں والوں کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔
اس آیت کا انداز بجائے خود حج کی اہمیت کو بتلا رہا ہے ، کہ اس کی ابتدا ہی یہ کہہ کر کی گئی ہے کہ بندوں پر اللہ کا حق ہے ، کہ وہ حج کو جائیں اور اللہ تعالی کی عطا کردہ ظاہری و باطنی اور داخلی اور خارجی نعمتوں کا شکر ادا کریں ؛ لہذا جو شخص بھی جسمانی اور مالی قدرت و استطاعت رکھتا ہو اس پر جلد از جلد اس فریضے سے سبکدوش ہونا لازم ہے اور اس میں تاخیر پسندیدہ نہیں ہے۔
حج کی فضیلت پر احادیث
نمبر (١): سیدنا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: من حج فلم يرفث ولم يفسق رجع من ذنوبه كيوم ولدته امه. ( بخاري ١/٢٠٦)
ترجمہ: جو شخص اس طرح حج کرے کہ اس میں کوئی گناہ کا کام اور بے حیائی کی بات نہ کرے، تو وہ گناہوں سے ایسے پاک ہو کر واپس ہوتا ہے ؛ جیسے آج ہی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو۔
حج میں رفث اور فسوق کا مطلب
اس حدیث میں رفت سے ہر بے حیائی اور لغو بات مراد ہے ؛ جبکہ فسوق میں ہر طرح کے گناہ شامل ہیں۔ یہ چیزیں اگرچہ حج کے علاوہ بھی منع ہیں ؛ لیکن حج کے ساتھ ان کی ممانعت بڑھ جاتی ہے۔ ( البحر العمیق ١/٥٦)
نمبر (٢): مشہور صحابی رسول حضرت عمر و بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں: کہ جب اللہ تعالی نے میرے دل میں اسلام کی رغبت ڈالی ، تو میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا : کہ اے اللہ کے رسول ! دست مبارک بڑھائیے؛ تاکہ میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کروں ؛ چنانچہ آپ نے اپنا دست اقدس بڑھایا، تو میں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔
اس پر پیغمبر علیہ السلام نے بطور تعجب فرمایا: کہ عمرو ! تمہیں کیا ہوا ؟ تو میں نے عرض کیا کہ میں آپ سے ایک شرط لگانا چاہتا ہوں ، پیغمبر علیہ السلام نے پوچھا : کہ کیا شرط ہے ؟ تو میں نے عرض کیا کہ شرط یہ ہے کہ میرے پچھلے سب گناہوں کو بخش دیا جائے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
اما علمت يا عمرو ان الاسلام يهدم ما كان قبله وان الهجره تهدم ما كان قبلها وان الحج يهدم ما كان قبله ( مسلم شريف ١٢١- ابن خزيمه ٢٥١٥، الترغيب والترہيب مكمل ٢٥٨)
ترجمہ : عمرو ! کیا تمہیں یہ معلوم نہیں؟ کہ اسلام اس سے پہلے کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے اور ہجرت سابقہ زندگی کے گناہوں کو مٹا دیتی ہے اور حج ماقبل کے گناہوں کی معافی کا سبب ہے۔

حج سے صغیرہ گناہ معاف ہوتا ہے یا کبیرہ ؟
یہاں یہ ضرور یاد رکھنا چاہیے ، کہ علماء کے نزدیک حج جیسی عبادات سے چھوٹے موٹے حقوق اللہ سے متعلق گناہ بغیر توبہ کے معاف ہو جاتے ہیں ؛ جبکہ بڑے گناہوں کی معافی کے لیے ساتھ میں توبہ شرط ہے، اور حقوق العباد سے متعلق گناہ ، محض حج سے یا محض توبہ سے معاف نہیں ہوں گے ؛ بلکہ صاحب حقوق کو راضی کرنا لازم ہے؛ لہذا کوئی اس خوشگمانی میں نہ رہے کہ لوگوں کے حقوق کو ضائع کر کے محض حج کرنے سے اس کے گناہ معاف ہو جائیں گے ؛ بلکہ حقوق العباد کی ادائیگی بہرحال لازم ہے ۔
نمبر (٣): حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں : کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تابعوا بين الحج والعمره فانهما ينفيان الفقر والذنوب كما ينفي الكير خبث الحديد والذهاب والفضه وليس للحجه المبروره ثواب الا الجنه. ( ترمذي )
ترجمہ : حج و عمرہ پے در پے کیا کرو ؛ کیونکہ یہ دونوں عبادتیں فقر و فاقہ اور گناہوں کو ایسے مٹا دیتی ہیں ، جیسے کہ بھٹی لوہے اور سونا چاندی کے کھوٹ کو جلا کر ختم کر دیتی ہے اور حج مبرور کا بدلہ سوائے جنت کے کچھ نہیں ہے ۔
نمبر (٤): سیدنا حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا: کہ حضرت داؤد علی نبینا و علیہ الصلاۃ والسلام نے اللہ تبارک و تعالی سے عرض کیا کہ یا الٰہ العالمین ! آپ کے جو بندے آپ کے گھر کی زیارت کو حاضر ہوں ان کے لیے کیا تحفہ ہے ؟ تو اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا
ان لكل زائر حق على المزور حقاً يا داوود ان لهم علي ان اعافهم في الدنيا واغفر لهم اذا لقيتهم . رواه الطبراني في الاوسط ٦٠٣٠، الترغيب والترهيب ٢٦١)
ترجمہ : ہر مہمان کا میزبان پر حق ہوتا ہے ، اے داؤد ان زائرین کا مجھ پر حق یہ ہے کہ میں انہیں دنیا میں عافیت سے نواز دوں گا اور آخرت میں جب میری ان سے ملاقات ہوگی تو ان کو مغفرت عطا کر دوں گا۔
نمبر (٥): سیدنا حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
الحج المبرور ليس له جزاء الا الجنه ، قيل وما بره ؟ قال اطعام الطعام وطيب الكلام ( مسند احمد ٣/٣٢٥)
ترجمہ: حج مبرور کا بدلہ سوائے جنت کے کچھ نہیں، پوچھا گیا کہ حج کا بر یعنی خاص نیکی کیا ہے ؟ تو پیغمبر علیہ السلام نے فرمایا: کھانا کھلانا اور اچھی گفتگو کرنا ۔
حج مبرور کا اطلاق کس حج پر ہوگا
اس بارے میں علماء کے کئی اقوال ہیں، جس میں سے تین اقوال درج ذیل ہیں
- نمبر (١) وہ حج جس کے ساتھ کوئی گناہ شامل نہ ہو
- نمبر (٢) وہ حج جو عند اللہ مقبول ہو اور اس کی علامت یہ ہے کہ حج کے بعد وہ حاجی اعمال خیر میں زیادتی کرے اور جن گناہوں سے توبہ کر چکا ہے ان سے دور رہے ۔
- نمبر (٣) حج مبرور وہ حج ہے، جس میں ریاکاری اور شہرت کا جذبہ نہ ہو ۔
اور حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کا مقولہ ہے : کہ حج مبرور کی علامت یہ ہے کہ آدمی حج کر کے جب واپس آئے تو دنیا سے بے رغبت ہو اور آخرت کی طرف رغبت کرنے والا ہو .(البحر العمیق ١/٥٧-٥٨)